افغانستان کے یونیورسٹی داخلہ امتحانات میں 3 سال سے طالبات غائب

0
61

افغانستان میں طالبان محکمہ تعلیم کے حکام نے گزشتہ ہفتے ملک کے 34 صوبوں میں سے تقریباً نصف میں یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات کا آغاز کیا، جس میں مسلسل تیسرے سال بھی کوئی طالبہ موجود نہیں تھی۔

نیشنل ایگزامینیشن اتھارٹی نے، جو کئی مرحلوں پر مشتمل امتحان لیتی ہے، کہا ہے کہ وہ اس سال کم از کم 75 ہزار مرد امیدواروں کو سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

تین سال قبل دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے، سخت گیر طالبان نے افغانستان میں 12 سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے سے روک دیا ہے۔ یہ پابندی دسمبر 2022 میں یونیورسٹی کی طالبات پر اچانک عائد کر دی گئی، جس سے وہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے سے محروم ہو گئیں۔

طالبان کی صرف مردوں پر مشتمل حکومت نے خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی سمیت ان کےحقوق اور پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، ان میں سے بہت سوں کو سرکاری اور نجی ملازمتوں پر جانے سے منع کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپ مسلسل ان کی مذمت کر رہے ہیں اور انہوں نےطالبان سے افغان خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

8 جون کو افغان حکام کی جانب سے خواتین کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کئے جانے ایک ہزار دن مکمل ہوگئے، جس سے ملک بھر میں 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوں گی۔

ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر حیتھر بار نے ای میل کے ذریعے وی او اے کو بتایا، “افغانستان ان ایک ہزار دنوں سے کبھی بھی مکمل طور پربحال نہیں ہو پائے گا۔”

“اس دوران ہونے والے اس امکانی نقصان کو یعنی وہ فنکار، ڈاکٹر، شاعر اور انجینئر جو کبھی بھی اپنے ملک کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں پہنچا سکے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہر اضافی دن، ساتتھ مزید خواب دم توڑ رہے ہیں۔” حیتھر بار نے کہا۔

طالبان اپنی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع افغان ثقافت اور اسلامی قانون کی پنی سخت خود ساختہ تشریح کے مطابق کرتے ہیں، اور وہ اصلاحات کے مطالبات کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔

اب تک کسی بھی بیرونی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کے خدشات اور افغان خواتین کے ساتھ ان کا سخت سلوک ہے۔

طالبان سیکیورٹی اہل کار صوبہ پروان کے شہر چاکریکار کے فٹ بال اسٹیڈیم کی نگرانی کر رہے ہیں جہاں دو خواتین کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ حالیہ دنوں میں طالبان کھلے عام 27 افراد کو کوڑے مارنے کی سزائیں دے چکے ہیں۔

بنیاد پرست حکمرانوں نے اقوام متحدہ کو بھی نظر انداز کیا ہے۔ جو”اخلاقی جرائم” اور گھر سے بھاگنے جیسے جرائم کے مرتکب افغان مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مارنے سے روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس طرح کی تازہ ترین سزائیں منگل کو اس وقت دی گئیں جب 14 خواتین سمیت 63 افراد کو شمالی افغان شہر سر پل میں کھیلوں کے میدان میں سرعام کوڑے مارے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here