پاکستانی مقبوضہ کشمیر: شٹرڈائون وپہیہ جام ہڑتال جاری ، عوام وفورسزمابین شدید جھڑپیں، حالات کشیدہ

0
50

پاکستانی مقبوضہ جموں وکشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے جاری عوامی حقو ق کی تحریک کے تحت دوسرے روز بھی شٹرڈائون وپہیہ جام ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔

عوام کی جانب سے ریاستی دارلحکومت مظفرآباد کیلئے کشمیر بھر سے لانگ مارچ کا آغاز ہو چکا ہے۔جبکہ ریاستی فورسز نے لانگ مارچ روکنے کیلئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی اور پر امن مارچ شرکا پر شیلنگ کر رہی ہے جس سے مظاہرین و فورسز مابیں شدید جھڑپیں جاری ہیں اور حالات شدید کشیدہ ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ فورسز نے مزید متعدد افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ آنسو گیس اور تشدد سے کئی افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

میرپور ڈویژن بھمبر سے لانگ مارچ کا آغاز ہو چکا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ کے ساتھ چار چار بڑی بلڈوزر مشینوں کو ساتھ رکھا ہوا ہے جو سڑکوں سے بڑی پہاڑیوں اور مٹی کے تودوں کو ہٹا کر چلنا شروع ہو گئے ہیں۔جبکہ میرپور ڈوڈیال سہنسہ میں خواتین مردوں کی لاکھوں کی تعداد قافلے میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں۔

کوٹلی پونچھ میںفورسز کی بڑی نفری تعینات کردی گئی ہے ۔

کہا جارہا ہے کہ فورسز کو بھاری ہتھیاراور سینکڑوں گاڑیاں دی گئی ہیں جو مکمل ایک جنگ کا سماں ہے ۔

گذشتہ روز10 مئی کو مظفرآباد سے احتجاج ختم ہونے کے بعد گھروں کو لوٹنے والے مظاہرین پر فورسز نے شیلنگ کر دی جس متعدد ززخمی ہوگئے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی جائنٹ سیکرٹری، اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق احمد نے جائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین شوکت نواز میر، تاجر رہنماؤں راجہ ابرار مصطفی اور راجہ ساجد اسحاق کے گھروں میں بدوں وارنٹ، بدوں خواتین پولیس چھاپے مارنے اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کو مجروح کرنے کی گزشتہ دن کی پولیس کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آزادکشمیر پولیس کو پنجاب پولیس میں تبدیل نہ کیا جائے ورنہ اس کا ردعمل بہت شدید ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر میں قبل ازیں کبھی بھی پولیس سیاسی /سماجی، تاجران نمائندوں کے گھروں میں بدں وارنٹ، بدوں لیڈی پولیس داخل نہیں ہوئی ہے۔

خواجہ فاروق احمد نے 11مئی کی کال کے حوالے سے حکومت کے اندر موجود 3 اتحادی مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سے بغاوت کر کے جانے والے 23اراکین اسمبلی پر مشتمل حکومت ہے، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کے اندر بھی موجود ہے اور ان کی حکومت سے باہر لیڈر شپ ہڑتال کے حوالے سے اپنا موقف بھی دیتی رہتی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ وہ بتائیں کہ دونوں اتحادی جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں یا عوام کے ساتھ کھڑی ہیں، سوشل میڈیا کا دور ہے، یہ دوعملی اب نہیں چلے گی ۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ حکومت میں موجود ہوں لیکن آپ کی حکومت میں ہوتے ہوئے پولیس لوگوں کے گھروں میں بدوں وارنٹ، بدوں لیڈی پولیس رات کی تاریکی میں گھس جائے معصوم بچوں کو خوفزدہ کرے، اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت کی اتحادی دونوں جماعتیں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی فیصلہ کریں کہ وہ کہاں کھڑی ہیں اب دوعملی نہیں چلے گی، لوگ آپ کا واضح موقف دیکھنا چاہتے ہیں، تحریک انصاف نے اسمبلی کے فورم پر بھی اور بعد ازاں بھی پوری کوشش کی کہ 11مئی سے قبل حکومت عوامی ایکشن کمیٹی کے جائز مطالبات تسلیم کرے۔

انہوںنے دونوں اتحادی جماعتوں کے ذمہ داران سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ اگر یہ نیک نیتی سے دباؤ ڈالتے تو انوار حکومت کبھی بھی عوام پر ظلم کرنے، ہٹ دھرمی کرنے کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی کہ ان دونوں جماعتوں کے حمایتی اراکین اسمبلی کی وجہ سے ہی انوار حکومت قائم ہے، مسلم لیگ (ن) کے دارالحکومت میں موجود ایک تنخواہ دار گماشتے عوام کو چوہے بلی کا کھیل تماشا دکھا کر غلط توجہ میڈیا میں دکھاتے رہتے ہیں لیکن اب عوام سوشل میڈیا کے دور میں سمجھدار ہو چکی ہے، ایسے بہروپیوں کو جان چکی ہے، لہٰذا تحریک انصاف پوری قوت کے ساتھ عوام کے ساتھ کھڑی ہے، تحریک انصاف کے مینڈیٹ چوری کرکے آزادکشمیر میں بھی رجیم چینچ آپریشن کیا گیا تھا۔

انہوںنے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپریل 2023 میں قائم کی گئی تھی اور یہ پی ڈی ایم کی حکومت جس کا مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی حصہ ہیں آج آزادکشمیر میں قائم ہے، عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ اسی حکومت کے وزراء نے مذاکرات 3ماہ قبل کیے تھے، 10ماہ سے اسی حکومت کے دوران یہ تحریک چل رہی ہے، حکومت چاہتی تو یہ ہڑتال ختم ہو سکتی تھی، تحریک انصاف باربار اسمبلی کا اجلاس بلانے کامطالبہ کرتی رہی لیکن اجلاس بلایا بھی تو 2دن کے بعد ہی ملتوی کرد یا گیا۔

خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ اب بھی حکومت کے پاس 24گھنٹے ہیں، عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ 3ماہ قبل کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرنے کا اعلان کرے اور ایک دوہ مطالبات جو رہ جائیں ان کیلئے کوئی مہلت واضح مانگ لی جائے بصورت دیگر تحریک انصاف پہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ ایف سی، پنجاب کانسٹیبلری اور آزادکشمیر پولیس کے ذریعے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی گئی، پنجاب پولیس جیسا کردار ادا کرنے کی کوشش کی گئی تو ڈڈیال جیسی تحریک اور واقعات پورے آزادکشمیر میں ہو سکتے ہیں، آزادکشمیر ایک پرامن خطہ ہے اس کے حالات کو پرامن رکھنے کی اس وقت چابی مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور انوارالحق کے 22حمایتی اراکین اسمبلی کے ہاتھ میں ہے، دیر نہ کریں بعد میں واویلا کرنے سے کوئی ہاتھ میں نہ آئے گا سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

واضع رہے کہ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق کی تحریک اور11 مئی کے لانگ مارچ اسمبلی کے گھیراؤ کے خلاف پاکستانی فورسز کا کریک ڈاؤن جاری ہے۔

گزشتہ روز سے جاری کریک ڈائون سے درجنوں افراد کو گرفتار و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ رات گئے مختلف لیڈران کے گھروں پر چھاپے بھی مارے گئے۔

کٹھ پتلی ریاستی حکومت نے ضلع مظفر آباد میں دس دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کردیا ہے جبکہ ڈڈیال میں آنسو گیس کی وجہ سے سکول کی بچیوں کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے ۔

پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں سستا آٹا اور سستی بجلی کی حصول کیلئے جاری عوامی حقوق کی تحریک کیخلاف ریاست پاکستان نے مکمل کریک ڈائون کیا ہے ۔

ریاستی حکومت کی جانب سے جموں کشمیر میں ایف سی کی تعیناتی کے فیصلے کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی نے 11 مئی کو لانگ مارچ اوراسمبلی کے گھیراؤ اعلان کیا تھا ۔

جس کے ردعمل میں ریاستی فورسز نے آنسو گیس و لاٹھی چارج کرکے درجنوں افراد کو گرفتارکیا جبکہ ایک طلبا تشددو گیس سے جان کی بازی ہار گئی۔

ریاستی دارلحکومت مظفر آباد میں ریاست کی جانب سے فلیگ مارچ کا بھی اعلان کیا گیا جسے عوامی حلقوں نے مکمل مستردکردیا اور حالات مکمل طور کشیدہ ہیں۔اور مظفر آباد میں دس دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کردیا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here