بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے تیس امریکن کانگریس ممبران کی طرف سے پاکستانی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے مطالبے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے خوش آہند قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا یہ بلوچ نیشنل مومنٹ ( بی این ایم) کے موقف کی تائید ہے جس نے دو دہائی قبل پاکستانی بندوبست کے اندر پارلیمانی سیاست کو ایک لاحاصل جدوجہد قرار دیتے ہوئے غیرپارلیمانی سیاست کا انتخاب کیا تھا۔ آج پاکستانی سیاست کے قد آور نام بھی پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کی بات کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں جمہوریت ایک ڈھونگ اور محکوم اقوام پر قبضے کو جائز قرار دینے کا حربہ ہے۔
چیئرمین نے کہا امریکن گانگریس کے اراکین آج اس پر بات کر رہے ہیں کہ امریکا کو دنیا میں ایسے ممالک کی مدد نہیں کرنی چاہیے جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ امید افزاء تبدیلی ہے اور انھیں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ’ مسئلہ بلوچستان‘ کو بھی زیر بحث لانا ہوگا۔ یہاں پاکستانی فوج انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں ملوث ہے۔بلوچستان پر ڈیتھ اسکوڈ کے سرغنہ ’سرفراز بگٹی ‘ کو نام نہاد وزیر اعلی مقرر کیا گیا ہے جو چھٹا بدمعاش اور بلوچ قوم کا قاتل ہے۔
انھوں نے کہا معزز رکن امریکی کانگرس گریگ کاسار درست سمت میں سوچ رہے ہیں کہ بدقسمتی سے امریکا نے دنیا میں ایسے حکمرانوں کی مدد کی ہے جنھوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی پرواہ نہیں کی۔پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو بھی امریکی حمایت حاصل تھی جس نے بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی کو ہوا دیا اور بی این ایم جیسی پرامن سیاسی جماعتوں کے لیے پرامن سیاست کے دروازے بند کیے۔
بی این ایم کے چیئرمین نے کہا جبری گمشدگی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے ، جبکہ پاکستانی فوج روزانہ کی بنیاد پر بلوچوں کو جبری لاپتہ کر رہی ہے۔امریکن اراکین کانگریس ، صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پاکستان کے محاسبہ میں کردار ادا کریں تاکہ یہاں بلوچ نسل کشی کو روکا جاسکے۔