گذشتہ انتخابات کی دھاندلی کا ذمہ دار جنرل فیض و باجوہ تھے ،فضل الرحمان

0
121

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہا ہے کہ میں سنہ 2018 کے انتخابات کی دھاندلی کا ذمہ دار جنرل فیض اور جنرل باجوہ کو سمجھتا ہوں۔

انھوں نے ’جی ٹی وی‘ کے پروگرام میں اینکر غریدہ فاروقی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’جب ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا سامنا رہا اور پھر جب دفاعی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی تو انھیں (فوج کو) بھی ادراک ہوا اور انھوں نے سنبھالا دینے کے لیے سیاست دانوں کے ساتھ رابطے کیے تھے۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے ایک نجی ٹی وی چینل پر یہ یہ الزام عائد کیا تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے کہنے پر لائی گئی تھی۔

اس کے بعد سے آج پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے اس الزام کی تردید کی گئی ہے۔

میزبان غریدہ فاروقی نے سوال کیا کہ جنرل باجوہ کی طرف سے ذرائع سے اس بارے میں خبر آئی ہے کہ وہ آپ کے کل کے بیان کر تردید کرتے ہیں اور اس بارے میں حلف اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے جواب میں کہا کہ ’یہ ہم سے کیسے حلف کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا فوج کے ہاں اپنے حلف کا احترام ہے، کیا جرنیلوں کے ہاں حلف کا احترام ہے۔ کیا جب وہ کمیشن لیتے (فوج میں) تو وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے؟ کیا وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتے اور اپنا حلف نہیں توڑتے، تو اگر آج کوئی ہمیں کہتا ہے کہ ہم حلف اٹھائیں تو اس کی کیا اہمیت ہو گی میری نظر میں۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کریں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’تحقیقات کون کرے گا؟ مجھے پاکستان کے کسی بھی ادارے بشمول عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہر موڑ پر رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ نہ ہو۔‘

پی ٹی آئی کے وفد سے ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا ’تحریکِ انصاف کے شدید اختلافات کے باوجود جب وہ یہاں آئے تو ہم نے ان کا استقبال کیا اور پورے ملک میں جمیعت کے کارکنوں کو ان کے بارے میں کوئی غیر محتاط گفتگو کرنے سے روک دیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا کارکن یہ سمجھتا ہے کہ اگر مولانا فضل رحمان کو گالی دی ہے تو وہ اس کو دی گئی ہے، اس لیے ہمیں تمام کارکنوں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here