کوئٹہ تاریخی جلسہ : ڈاکٹرماہ رنگ کا 25 جنوری کو بطور یوم ِبلوچ نسل کشی منانیکا اعلان

0
183

بلوچ نسل کشی و جبری گمشدگیوں کیخلاف بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں شاہوانی اسٹیڈیم میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام عظیم الشان تاریخی جلسہ سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے 25 جنوری کو بطور یوم بلوچ نسل کشی منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ 25 جنوری 2014 میں مستونگ کے علاقے توتک میںاجتماعی قبروں سے 200 کے قریب لاشیں برآمد ہوئیں جو جنہیں لاوارث قرار دیا گیا ہے وہ لاوارث بالکل نہیں ان کے وارث بلوچ قوم ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست کو اس کی زبان میں سمجھانا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ گونگے اور بہرے ہیں اور ہمارے پاس اپنی زمین پر مر مٹنے والے ہتھیار ہیں۔ ان کو یہ نہیں معلوم کو یہ جن سامراجیوں کے تلوے چاٹتے ہیں بلوچ نے ان کو بھی خاک چٹوائی ہے۔ اس ریاست کے پاس ایک طاقت تھی کہ کس طرح بلوچوں کو ڈرایا جائے جس کیلئے اس نے اپنی پوری مشینری استعمال کی، ریاست نے چن چن کر انہیں اٹھایا، چن چن کر ان کی لاشیں پھینکی گئیںمگر وہ ڈرا نہ سکے اس قوم کو ، اس خوف کو ہم نے توڑ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے آج اس جلسے میں انقلاب کی بو آرہی ہے وہ انقلاب جس کا خواب ہمارے شہیدوں نے دیکھا۔ جس کے لیے یہ مائیں 15 سال سے تڑپ رہی ہیں، ان کی آنکھوں کے آنسوں خشک ہوچکے ہیں۔ مائیں اپنے بیٹوں کی پیدائش پر روتی ہیں تڑپتی ہیں۔ پاکستانی ریاست کے خونخواروں نے بلوچ نوجوانوں کا خون پیا ہے۔تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ بلوچوں نے ریاستی طاقت کو شکست دی۔ یہ ہمارے متعدد شہدا کا خون اور قربانیوں کا ثمر ہے کہ ہم آج پاکستانی ریاست کے ظلم و جبر کیخلاف کھڑے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ نام نہاد قوم پرست جو لاپتا افراد پر سیاست کرتے ہیں وہ پس پردہ بلوچوں کے خون اور ان کی عزت کا سودا کرتے ہیں۔ پاکستان کے فوجیوں کو یہ تربیت دی گئی ہے کہ بلوچوں پر کس طرح ظلم کرنا ہے۔ تربت سے نکلنے والا لانگ مارچ جو بالاچ کیلئے نکلا تھا وہ تمام مظلوم بلوچوں کی آواز بن گیا، ہم میڑھ لیکر آئے ہیں آپ کے پاس کہ اپنے معصوم نوجوانوں کیلئے ایک ہوجاؤ۔ جب ہم اسلام آباد کیلئے نکلے تو ہمیں پتا تھا کہ ہماری بات نہیںسنی جائیگی، ہم نے اس ریاست کو پوری دنیا کے سامنے ایکسپوز کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ جذباتی نہیں نظریاتی ہے، یہ ہم پر کبھی رحم نہیں کریں گے، میں رہوں یا نہ رہوں یہ ہماری تحریک آپ کیلئے امانت ہے۔ یہ روایتی جلسہ گاہ نہیں یہ کوئی روایتی جلسہ نہیں یہ تحریک دنیا بھر کے بلوچوں کی آواز ہے۔ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشن، قتل و غارت اور بلوچوں کو مہاجرین کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کیخلاف ہے۔ یہ دھرتی میر محراب کی دھرتی ہے، یہ عبدالعزیز کرد کی ہے، یہ دھرتی نواب خیر بخش، بالاچ، بانو کریمہ کی دھرتی ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آؤ دیکھو آج اس عوامی طاقت کو ، ان اندھی عدالتوں سے ہمیں دبانے کی کوشش کی، ریاست کی تمام پالیسیوں کیخلاف یکجا ہوجاؤ، قومی زندگی کیلئے اپنی زندگی کو وقف کردو، اور وہ لوگ جنہوں بلوچوں کو تفریق کرنے کی کوشش کی ہم ان کو یہ پیغام دیں گے کہ آج بلوچ متحد ہے۔ بلوچ عوام کو اب اپنی صف بندی کرنا ہوگی۔ یہ 1948 ءنہیں یہ 2024ءہے اور یہ بنگال نہیں یہ بلوچستان ہے۔ یہ تحریک بلوچستان کی بقا کی تحریک ہے اور یہ تحریک اسی طرح چلتی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ جلسہ عام میں بلوچ دانشور و لکھاریوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچ قوم کے ساتھ جاری ریاستی ظلم و بربریت جاری رکھے ہوئے ہے اسے قلمبند کرواور تاریخ کا حصہ بنائو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here