جرمنی میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنیوالے داعش کے 4 شدت پسند گرفتار

0
324

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مختلف مقامات پر مارے گئے چھاپوں کے دوران امریکی فوجی اڈوں پر مسلح حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے چار مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے بتایا گیا کہ ان چاروں مشتبہ انتہا پسندوں کو ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مختلف مقامات پر پولیس کے خصوصی دستوں کی طرف سے آج بدھ پندرہ اپریل کے روز علی الصبح مارے گئے چھاپوں کے دوران حراست میں لیا گیا۔

دفتر استغاثہ کے مطابق ان مشتبہ شدت پسندوں کا تعلق تاجکستان سے ہے اور ان کی شناخت عزیز جان، محمد علی، فرہاد اور سنت اللہ کے طور پر کی گئی ہے۔ جرمن حکام نے ان میں سے کسی بھی ملزم کی مکمل ذاتی شناخت ظاہر نہی کی، جس کی وجہ جرمنی میں نافذ پرائیویسی رائٹس کے تحفظ کا ملکی قانون ہے۔

ان تمام مشتبہ انتہا پسندوں کا مبینہ سربراہ ایک ایسا تیس سالہ تاجک شہری بتایا گیا ہے، جس کا نام رضوان ہے اور جو گزشتہ برس مارچ سے جرمنی کی ایک جیل میں بند ہے۔ اس تاجک شہری کے خلاف عائد الزامات یا اس کے مبینہ جرم کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔

مارے جانے والے چھاپوں کے دوران ان مبینہ شدت پسندوں کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی دفتر استغاثہ نے بتایا کہ ان ملزمان پر ایک دہشت گرد تنظیم کی رکنیت کے الزام میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔

نیوز ایجنسی اے پی نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ چاروں گرفتار شدگان جنوری 2019ئ میں دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش میں شامل ہوئے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ جرمنی میں دہشت گردی کے لیے ایک ‘سیل‘ قائم کریں۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ان ملزمان نے پہلے تاجکستان میں ایک حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اپنے حملوں کے لیے جرمنی کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ مبینہ شدت پسند جن اہداف کو نشانہ بنانا چاہتے تھے، ان میں امریکی فوج کا ایک فضائی اڈہ بھی شامل ہے اور ایک ایسی شخصیت بھی جسے اسلام کی ناقد سمجھا جاتا ہے۔

ان چاروں تاجک ملزمان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ شام اور افغانستان میں داعش کے دو سرکردہ شدت پسند رہنماو¿ں کے ساتھ مسلسل رابطوں میں تھے۔

جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق شدت پسندوں کے اس گروہ نے مسلح حملوں کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے گولہ بارود اور آتشیں ہتھیار بھی حاصل کر لیے تھے۔ اس کے علاوہ اس گروہ کے ارکان کو جو دھماکا خیز مواد تیار کرنا تھا، اس کی خاطر کیمیائی اجزاءکا آرڈر اس گروپ کے مبینہ سربراہ رضوان نے دیا تھا۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشتبہ دہشت گردوں کے اس گروہ نے اپنے ارادوں پر عمل درآمد کے لیے مالی وسائل اس طرح حاصل کیے تھے کہ گروہ کے مبینہ سربراہ رضوان نے البانیہ میں کسی کو قتل کرنے کے لیے 40 ہزار امریکی ڈالر وصول کیے تھے لیکن کرائے پر قتل کا یہ منصوبہ ناکام رہا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here