یمن میں خانہ جنگی سے 11 ہزار سے زائد بچے ہلاک و معذور ہوچکے ہیں، یونیسیف

0
209

اقوام متحدہ نے یمن میں تقریباً 8 سال سے جاری خانہ جنگی کی خوفناک منظر کشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران اب تک 11 ہزار سے زیادہ بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اقوام متحدہ کی بچوں کے معاملات سے متعلق ایجنسی ’یونیسیف‘ نے دنیا کے بدترین انسانی بحران سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا کہ ان افسوسناک تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر یونیسیف کیتھرین رسل نے کہا کہ ہزاروں بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو کر موت کی وادی میں اتر گئے، انسانی المیے کے دوران زندہ بچ جانے والے لاکھوں مزید بچوں پر بیماری یا بھوک کے باعث موت کے خطرات کے بھیانک سائے منڈلا رہے ہیں۔

یونیسیف نے کہا کہ تقریباً 22 لاکھ یمنی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، غذائی قلت کے شکار بچوں میں سے ایک چوتھائی کی عمریں 5 سال سے بھی کم ہیں، ان بچوں میں سے زیادہ تر کو ویکسی نیشن کے ذریعے روکے جانے کے قابل بیماریوں جیسا کہ ہیضہ، خسرہ اور اس طرح کے دیگر امراض سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

عالمی ایجنسی کے تازہ ترین اعداد و شمار مارچ 2015 سے ستمبر 2022 کے درمیان 3 ہزار 774 بچوں کی موت کی تصدیق کرتے ہیں۔

یمن جنگ 2014 میں شروع ہوئی جس کے بعد فوری طور پر ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا جس کے اگلے سال سعودی زیر قیادت افواج نے حکومت کی حمایت کرتے ہوئے مداخلت کی۔

یونیسیف نے کہا کہ جنگ بندی ختم ہونے سے اب تک کم از کم 62 بچے ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔

کیتھرین رسل نے کہا کہ جنگ بندی کی فوری بحالی ایک مثبت پہلا قدم ہوگا جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لازمی رسائی کو ممکن بنادے گا۔

انہوں نے کہا کہ آخر کار صرف پائیدار امن ہی خاندانوں کو اپنی تباہ حال زندگیوں کو دوبارہ بحال کرنے اور مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران 3 ہزار 409 لڑکوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا اور 90 سے زیادہ لڑکیوں کو چیک پوسٹوں اور چوکیوں پر تعینات کرنے کے علاوہ دیگر ذمے داریاں سونپی گئیں۔ یونیسیف نے یمن میں جاری خوفناک انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے 48.44 ارب ڈالر کی امداد کی اپیل کی۔

کیتھرین رسل نے کہا کہ اگر یمن میں رہنے والے بچوں کو اچھے مستقبل کا کوئی موقع ملنا ہے تو تمام اثر و رسوخ رکھنے والوں کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، ان کو سپورٹ کیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here