واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت سے چند گھنٹے قبل کل منگل کو جرمنی میں منعقدہ گروپ آف سیون کے سربراہ اجلاس میں ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے پر زور دیا گیا اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ایرانی کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔
’جی سیون‘ نے اپنیحتمی بیان میں تہران سے اپنی بیلسٹک میزائل کارروائیوں اور سمندری نیوی گیشن کے لیے خطرات کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا۔ جی سیون گروپ نے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے سفارت کاری کے طریقے کو اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
سات بڑے ممالک نے کہا کہ ایران نے جوہری معاہدے کی طرف واپسی کے سفارتی موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گذشتہ دنوں کی انتھک یورپی کوششوں کے بعد گذشتہ مارچ سے تعطل کا شکار جوہری مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے دوحا میں آج شام بالواسطہ امریکا ایران مذاکرات شروع ہونے کا امکان ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کل شام پیر کو العربیہ/الحدث کینامہ نگار کو بتایا کہ بات چیت بالواسطہ طور پر ہوگی۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ واشنگٹن ویانا میں طیپائے نکات کی روشنی میں اس معاہدے کو مکمل کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے تاکہ مشترکہ جامع منصوبہ بندی کے مکمل نفاذ کی طرف باہمی واپسی ہو۔
امریکا نے زور دے کر کہا کہ ایران کی جوہری مذاکرات کی طرف واپسی کیساتھ اسے اپنے اضافی مطالبات کو ترک کرنے کی ضرورت ہے جو کہ ”جوہری معاہدے سے باہر ہیں ”۔ ان مطالبات میں ممکنہ طور پر پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا مطالبہ شامل ہے۔
دریں اثناء ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ چیف جوہری مذاکرات کار علی باقری کنی جوہری مذاکرات کے لیے کل دوحہ پہنچ گئے۔