کوئٹہ: بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کیخلاف جاری دھرنامظاہرین کا چیف جسٹس سے مکالمہ

0
210

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کیخلاف جاری دھرنامظاہرین نے چیف جسٹس بلوچستان سے انصاف کی اپیل کی ہے اور ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ انصاف میں تاخیرظلم کے برابر ہے۔

وائس آف بلوچ مسنگ پرسن کے رہنما نصر اللہ بلوچ نے چیف جسٹس بلوچستان سے کہا کہ میرا تعلق بھی ایک بلوچ فیملی سے ہے، یہاں ہائیکورٹ میں بہت سارے کیس چل رہے ہیں، سب کچھ ہوا مگر کوئی انصاف نہیں ملا، اب خواتین کا مسئلہ ہے، اگر کوئی ملزم ثابت ہوتا ہے تو ہم اس کا دفاع نہیں کریں گے مگر آپ اگر بلوچستان کی تاریخ دیکھیں تو اس سے پہلے بھی بلوچ خواتین کو لاپتہ کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں یہ نہیں جانتا خصوصی ادارے اپنا کام کرتے ہیں، اگر یہ خاتون جو گرفتار ہیں یہ اعتراف کرتی ہیں کہ میرے ساتھ کچھ اور خواتین بھی ہیں جو خود کش حملے کی تیاری کر چکی ہیں، تو کیا ان کو روکنا ضروری نہیں ہے۔

نصر اللہ بلوچ نے کہا آپ حبیبہ بلوچ کا کیس دیکھیں وہ بلوچ شاعرہ ہیں اسے چار دن پہلے اٹھایا گیا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں حبیبہ بلوچ کو کورٹ میں بلوا لیتا ہوں، لیکن حبیبہ کو انہیں نے رہا کر دیا ہے، جس پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہماری ایک درخواست کورٹ میں دائر ہے،یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں ہماری کوئی سیاست نہیں ہے، مشکوک کر کے خواتین کو اٹھایا جاتا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو بھی تھانے لیجایا جا سکتا ہے مگر 24گھنٹو ں سے زیادہ اسے تھانے میں نہیں رکھا جا سکتا،اگر اس سے زیادہ دیر وہ کسی تھانے میں رکھتے ہیں تو مجسٹریٹ کو پیش کیا جائیگا، اگر اس میں کوئی غیر قانونی بات ہے تو آپ آ جائیں درخواست لے کر عدالت ہم اسے بھی بلائیں گے جو تفتیش کر رہا ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ابھی نور جہاں کیس کی تفتیش ہو رہی ہے، آج بھی ان کی پیشی ہے، حبیبہ کیلئے کراچی میں درخواست دائر ہے، جتنے لاپتہ افراد ہیں سب کے نام کمیشن میں دائر کئے گئے ہیں، ہم نے کوئی غیر قانونی راستہ نہیں اختیار کیا،ہمارے احتجاج کا مقصد یہ ہے کہ اب جو سلسلہ شروع ہوا ہے جو کیسز ڈالے گئے ہیں وہ سمجھ سے بالا تر ہیں، اگر کوئی ملزم ہے اور قانون ثابت کرتا ہے تو اسے ٹھیک ہے اگر ملزم نہیں تو کیا ہوگا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ بری ہو جائے گا، اگر کسی افسر نے غیر قانونی کام کیا ہے تو واضع ہو جائیگا، آپ قانون کا راستہ لیں قانون کا بول بالا ضرور ہوگا۔

جس پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ اگر نور جہاں مشکوک ہے تو عدالت میں لے کر آئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالت آئیں آپ کو انصاف ضرور ملے گا، عوام کیلئے راستہ کھولیں آپ احتجاج کریں لیکن عوام کو پریشان نہ کریں، میں پیدل بھی جا سکتا ہوں میری کوئی انا ء نہیں مجھے آپ کہیں یہاں سے مت جاؤ میں دوسرے راستے سے بھی چلا جاؤں گا لیکن عوام کو پریشان نہ کریں،آپ احتجاج کریں لیکن راستہ بند نہ کریں یہ جرم ہے۔

نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ انصاف میں دیر ظلم کے مترادف ہے، 2018سے سپریم کورٹ نے کیسز میں جوڈیشل انکوائری کروائی،ہم سے آپ بہتر جانتے ہیں، لیکن بعض کیسز کو 10،10سال گزر گئے لیکن ان پر کوئی پیشرفت نہیں ہو ئی، آپ کمیشن کی بات کرتے ہیں ہم کمیشن میں گئے۔

انہوں نے کہا کہ آپ ثبوت لائیں ہم کارروائی کریں گے، ہم ثبوت بھی لے گئے لوگوں نے وہاں حلفیہ بیان بھی دیا لیکن وہاں کارروائی نہیں ہوئی، کمیشن سے بات ہوئی کہ سپریم کورٹ نے 2018میں آرڈر دیا تھا کہ کیسز چلائیں آپ کیسز کیوں نہیں چلاتے وہ کمیشن نے جواب دیا کہ ہمیں آرڈر ملا ہے ہم کیسز پر کارروائی نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نور جہاں گرفتار ہوئی ہیں،تفتیش جاری ہے ہائیکورٹ کا جسٹس تفتیش میں مداخلت نہیں کرسکتا، جب ان کا ریمانڈ مکمل ہو گا جو سامنے آئے گا اس کے مطابق فیصلہ دیا جائیگا، آپ عدالت اورجج کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے دیں،آپ یہ راستہ میرے لئے نہیں عوام کیلئے کھولیں مہربانی ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here