عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی منگل کے روز سامنے آنے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق روس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا بھر میں غلط معلومات اور پروپیگنڈہ کا رواج عروج پر ہے جس کی وجہ سے غیر جانبدارانہ رپورٹنگ پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ادارے کی جانب سے 2022 کے لیے اپنی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کی اشاعت کی گئی ہے۔
اس انڈیکس میں پاکستان بارہ درجے تنزلی کے ساتھ اس برس 157ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ بھارت 8 درجے تنزلی کے ساتھ 150 جب کہ سری لنکا 146، بنگلہ دیش 162 اور میانمار 176 کی درجہ بندی پر ہے۔
پیرس سے تعلق رکھنے والی صحافیوں کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے کے بعد بین الاقوامی طور پر فیک نیوز اور پروپیگنڈا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
صحافتی واچ ڈاگ ادارے کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں میڈیا میں تفریق پائی جاتی ہے۔
ادارے کے امریکہ کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر کلیٹن وائمرز نکے مطابق 2022 میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ میڈیا میں تفریق اور معلومات کی افراتفری سماجی طور پر نئے طریقوں سے تفریق پیدا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جانبدارانہ خبروں کے عروج کی وجہ سے مصدقہ صحافت کو نقصان ہوا ہے۔
گروپ کی سالانہ رپورٹ میں 180 ممالک کو غیر جانبدارانہ صحافت کے لیے موجود ماحول کی بنیاد پر رینک کی گئی ہے۔ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ اس بار انہوں نے تحقیق کے لیے نئے طریقہ کار کا انتخاب کیا ہے جس میں اس ملک کی سیاسی، قانونی، معاشی، سماجی و ثقافتی اور سلامتی کی صورت حال کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
اس انڈیکس میں 28 ممالک کی درجہ بندی میڈیا کی آزادی کے لیے انتہائی بری صورت حال کے طور پر کی گئی ہے۔ ان مملک میں چین بھی شامل ہے جو سنسرشپ کے رجحان کو برآمد بھی کر رہا ہے اور کریملن کی جانب سے روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے سے متعلق پروپیگنڈا کو بھی بڑھا چڑھا رہا ہے۔
یوکرین پر روس کی جانب سے حملہ آور ہونے کے بعد روس نے ملک میں خبروں کی کوریج پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک نئے قانون کے تحت فوج سے متعلق ”غلط خبر“ رپورٹ کرنے پر 15 برس کی قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس کشیدگی کو جنگ قرار دینے کی بھی ممانعت ہے۔
ملک میں غیر جانبدارانہ نیوز ادارے بند ہونے پر مجبور ہیں یا چند ایسے ہیں جو ملک سے باہر سے اپنی کوریج کرنے پر مجبور ہیں۔
روس اس انڈیکس کے مطابق میڈیا کی آزادیوں کے لحاظ سے 180 ممالک کی فہرست میں 155 کے درجے پر آتا ہے۔
چین کا درجہ 175 واں ہے۔ بیجنگ کے مکمل طور پر اثر میں آنے کے بعد ہانگ کانگ میں بھی میڈیا کی آزادیاں محدود ہوئی ہیں اور ملک 148ویں درجے پر چلا گیا ہے۔
آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق 2013 سے اقتدار میں آنے کے بعد سے صدر زی جن پنگ نے میڈیا سے متعلق ماؤزے تنگ کے زمانے کی صورت حال پیدا کر دی ہے جہاں معلومات تک رسائی بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے اور معلومات فراہم کرنا تو اس سے بھی بڑا جرم ہے۔
ادارے نے جنوبی کوریا، میانمار اور افغانستان کی مثالیں دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دنیا بھر میں سیاسی خلفشار، کشیدگی اور آمریت کی وجہ سے برسوں کی محنت ضائع ہو گئی ہے۔
رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کے مطابق افغانستان جو سال 2021 میں پریس فریڈم انڈیکس میں 122ویں نمبر پر تھا، اپنی درجہ بندی میں 34 نمبروں کی تنزلی کے سات 156ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ ادارے کے مطابق یہ درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان کے اندر صحافیوں اور میڈیا کو کس طرح کی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ امریکہ بھی میڈیا کی آزادیوں کے لحاظ سے ’پرفیکٹ‘ نہیں ہے۔ امریکہ کو میڈیا کی آزادیوں کے لحاظ سے 42 واں درجہ دیا گیا ہے۔ آر ایس ایف کے مطابق ملک میں مقامی اخباروں کا ختم ہوجانا، میڈیا میں تفریق، ڈجیٹل پلیٹ فارمز کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف عداوت اور جارحانہ رویوں کا پروان چڑھنا شامل ہے، جس سے صحافت کو نقصان پہنچا ہے۔
کلیٹن کے مطابق اگرچہ دنیا بھر میں میڈیا کی آزادیوں میں کمی دیکھنے میں آئی، کچھ جگہوں سے مثبت خبریں بھی دیکھنے کو ملیں۔
ادارے کے مطابق کچھ ممالک میں میڈیا اداروں کو حکومت کی جانب سے فنڈنگ دی جاتی ہے جبکہ ان کے ادارہ جاتی آپریشن میں مداخلت نہیں کی جاتی تاکہ یہ ادارے سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد رہیں۔
ان کے بقول ”اگر آپ دیکھیں، جو ممالک اس درجہ بندی میں سرفہرست ہیں ان مملک میں میڈیا کے لیے مناسب سرکاری فنڈنگ دستیاب ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم میڈیا کو سرکاری فنڈں گ اور سرکاری کنٹرول میں کام کرنے والے میڈیا میں تفریق کریں۔
اس سلسلے میں ناروے، ڈنمارک اور سویڈن اس درجہ بندی میں سرفہرت ہیں جب کہ ایسٹونیا اس درجہ بندی میں چوتھے مقام پر ہے۔