کشمیر: مبینہ جھڑپ میں 3 نوجوانوں کو ہلاک کرنیوالے فوجی افسر کا کورٹ مارشل

0
306

بھارتی فوج نے کہا ہے کہ کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں میں جولائی 2020 میں ایک”آپریشن” کے دوران تین نوجوانوں کو ہلاک کرنے کے واقعہ میں ملوث فوجی افسر کیپٹن بھوپندر سنگھ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

بھارتی فوج نے 18 جولائی 2020 میں کہا تھا کہ فوجی افسر نے ضلع شوپیاں کے امشی پورہ علاقے میں ”آپریشن” کے دوران تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے۔ ہلاک کیے گئے تینوں افراد ان کے بقول غیرملکی باشندے لگ رہے تھے۔

البتہ بعد میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہلاک کیے گیے نوجوانوں کی عمریں 16 سے 25 سال کے درمیان تھیں اور وہ دراصل سرحدی ضلع راجوری سے امشی پورہ کے ایک میوہ باغ میں مزدوری کے لیے ایک دن قبل ہی پہنچے تھے۔ او ر وہ مزدوری سے حاصل رقم سے اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتے تھے۔

پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ تینوں نوجوان مزدوری کرنے کے لیے 17 جولائی کو راجوری سے شوپیاں پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھا اور اُسی شام اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ا یک مقامی میوہ باغ میں کام مل گیا ہے اور وہ اگلے روز سے وہاں کام شروع کریں گے۔لیکن اس کے بعد ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

تینوں نوجوانوں کے گھر والوں نے پولیس اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ وادء کشمیر میں چوں کہ فون اور دوسری مواصلاتی سروسز اکثر بند ہو جاتی ہیں تو شاید ان کے عزیز ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔

بعد ازاں ان نوجوانوں کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے پر نوجوان محمد امتیاز، محمد ابرار اور ابرار احمد خان کے والدین اور دیگر رشتے داروں نے واقعے کی غیرجانبدارانہ عدالتی تحقیقات اور ملوث فوجیوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

مبینہ جھڑپ میں نوجوانوں کو ہلاک کیے جانے کے بعد پولیس نے ان کی لاشوں کو کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے گانٹہ مولہ کے علاقے کے ایک قبرستان میں دفن کردیا تھا۔ اس مقام پر عمومی طور پر حفاظتی دستوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک غیرملکی مبینہ عسکریت پسندوں کو دفنایا جاتا ہے۔

پولیس نے اس وقت کہا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیوں کہ ان مبینہ دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہو سکی تھی اور ان کی لاشوں کو وصول کرنے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں نے پولیس کے کردار کی بھی نکتہ چینی کی تھی۔ کیوں کہ پولیس نے ایک بیان میں ہلاک مبینہ عسکریت پسندوں کے زیرِاستعمال اسلحے کو ضبط کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

بعد ازاں یہ بات واضح ہونے پر کہ نوجوانوں کو ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا ہے پولیس نے یہ کہا تھا کہ اس نے واقعے سے متعلق بیان فوج کی فراہم کردہ اطلاع پر جاری کیا تھا۔

پولیس نے تحقیقات مکمل کیں، جس کے بعد ملزمان کے خلاف فردِجرم عائد کی گئی۔ اس فرد جرم میں کہا گیا کہ کیپٹن بھوپندر سنگ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان نوجوانوں کو ہلاک کیا اور واقعے کے بارے میں اپنے اعلیٰ افسران اور جموں وکشمیر پولیس کو غلط معلومات فراہم کیں۔اس کے علاوہ دو اور ملزمان مقامی باشندوں تابش نذیر اور اسپیشل پولیس افسر بلال احمد خان لون کے ساتھ مل کر ثبوت جان بوجھ کر تباہ کیے جس میں اس عمارت کو آگ لگانا بھی شامل تھا جس کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ ہلاک کیے جانے والے مبینہ عسکریت پسند اسے کمین گاہ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ تابش اور بلال دووں بھارتی فوج کے لیے مبینہ طور پر مخبر کا کام کرتے تھے۔

پولیس چارج شیٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ان تینوں نے ایک مجرمانہ سازش کی تھی جس کا مقصد نقد انعامات حاصل کرنا تھا۔البتہ فوج کا کہنا تھا کہ کیپٹن بھوپندر سنگھ نے نقد انعام کے لالچ میں ایسا نہیں کیا ہوگا کیوں کہ جنگی حالات یا کسی بھی دوسری صورتِ حال میں بھارتی فوج میں اس کے اہل کاروں کے لیے ایسا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔

بعض حلقوں کے مطابق بھارتی کشمیر میں گزشتہ 32 برسوں سے جاری شورش سے نمٹنے والی سیکیورٹی فورسز کے کئی اہل کاروں نے ترقی پانے کے لیے ماضی میں اس طرح کی کارروائیاں کی ہیں، البتہ حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں پر فرضی جھڑپوں میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ البتہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارتی فوج نے اپنے کسی افسر کے خلاف کورٹ مارشل کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here