تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے حکومت جانب آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس تیار

0
265

پاکستان میں سیاسی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے، جہاں قومی اسمبلی کے سپیکر نے 25 مارچ کو اجلاس طلب کیا ہے وہی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے پارٹی کے منحرف ارکان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس تیار کر لیا جسے پیر کے روز سپریم کورٹ بھجوائے جانے کا امکان ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس تیار ہو گیا ہے اور آج یعنی 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اتوار کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ ریفرنس تیار ہو گیا ہے اور کل (21 مارچ) کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اس کیس سے پاکستان کی سیاست میں ضمیر بیچ کر لوٹا بننے کا گھناؤنا کاروبار ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، اور حرام کے پیسے کی سیاست میں اثرو رسوخ میں کمی آئے گی۔‘

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 14 ارکان قومی اسمبلی کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری کیے ہیں۔

نوٹس کے متن کے مطابق لکھا ہے کہ’ذرائع ابلاغ پر آپ کی پی ٹی آئی سے علیحدگی کی اطلاعات زیرِ گردش ہیں اور اطلاعات کے مطابق آپ پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی سے علیحدہ ہو کر حزب اختلاف کاحصہ بن چکے ہیں، حزب اختلاف کی یہ جماعتیں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاچکی ہیں۔‘

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’آپ نے خود سے منسوب اطلاعات کی تردید کی نہ ہی کوئی وضاحت سامنے آئی، آئین کی دفعہ 63 اے آپ کو جماعتی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند بناتی ہے لہٰذا قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے روبرو پیش ہو کر صفائی پیش کریں اور اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا جواب دیں۔‘

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ’نیوٹرل ادارے کے سربراہ یا کسی عہدیدار کے خلاف حکومت نے کوئی قدم اٹھایا تو اپوزیشن تسلیم نہیں کرے گی۔‘

پاکستان کے مقامی نیوز چینل جیو نیوز کے پروگرام ‘جرگہ’ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم ہو چکی، اس کا ہر قدم غیر قانونی اور غیر آئینی ہو گا۔‘

رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں، سٹیبلشمنٹ کا کھلا خط ہے کہ ہم مداخلت نہیں کریں گے، حکومت آئینی طریقے سے بھاگ رہی ہے مگر پاکستان یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔’

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی پارٹی کے ورکر کی حیثیت سے امور انجام دے رہے ہے۔ سپیکر نے اسمبلی اجلاس 25 مارچ کو بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کا ایسا کوئی مطالبہ نہیں جو نہ مانا جائے، عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں قائد ایوان شہباز شریف ہوں گے جبکہ سپیکر کا عہدہ پیپلزپارٹی کو دینے سے متعلق ابھی کچھ طے نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں اپوزیشن کو بھی بلانا چاہیے تھا۔ ‘ہم او آئی سی اجلاس کی وجہ سے چپ ہیں۔ اجلاس کے لیے آنے والے عمران خان کے نہیں پاکستان کے مہمان ہیں۔

اس سے قبل اتوار کو پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں سپیکر قومی اسمبلی پر ’آئین شکنی‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’14 روز میں اسمبلی کا اجلاس نہ بلانا آئین شکنی ہے، اس پر ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ باقی باتیں چھوڑیں آئیں اور پارلیمان میں آ کر ہم سے مقابلہ کریں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’وزیراعظم، ان کے وزرا اور سوشل میڈیا ٹیمز کوشش کر رہی ہیں کہ ادارے نیوٹرل نہ رہیں انھیں اشتعال دلایا جائے اور آئینی بحران پیدا کیا جائے۔‘

خیال رہے کہ ایسا ہی الزام شہباز شریف کے ترجمان ملک احمد خان کی جانب سے بھی عائد کیا گیا ہے جنھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ‘تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کو فوج کے ادارے کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، جس ریاست میں فوج کی مرکزی اتھارٹی تحلیل ہو جائے اس ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔‘

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’جہاں تک دھرنے کا تعلق ہے ہم نے سوچا کہ یہ ضرور 21 کو سیشن بلوا لیں گے پھر او آئی سی کے تین دن ہو جاتے لیکن یہ اتنے ڈرے ہوئے ہیں گبھرائے ہوئے ہیں کہ وہ سیشن آئین توڑ کر 25 کو بلا رہے ہیں۔ اور ہم یہ کیس عدالتی اور آئینی سطح پر لڑیں گے۔‘

بلاول کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے نہیں کہ نہ آئین میں اس کی گنجائش ہے نہ قواعد میں اس کے لیے گنجائش ہے ہم یہ کیس اب عدالتی اور آئینی فورمز پر لڑیں گے۔ ہمارے نمبرز تو پورے ہیں ہم یہ چیلنج کرتے ہیں کہ کل ہی آپ سیشن بلائیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ سپیکر کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا جو اتفاق رائے ہو گا اس پر ہی چلیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ مذہب بہت پاک چیز ہے اور سیاست بہت خطرناک چیز ہے انھیں الگ الگ رکھیں تو بہتر ہے۔ انھوں نے وزیراعظم کے نام پیغام میں کہا کہ ’عوام کا مطالبہ ہے کہ مدینہ کی ریاست کا نعرہ استعمال کرنا فوری طور پر بند کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت جتنی بھی کوشش کرے گی ریفرنس سے بھاگنے کی ہم سمجھتے ہیں عدالت کسی بھی صورت میں غیر آئینی کام میں سپورٹ نہیں کرے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’امید ہے کہ سپریم کورٹ قانونی کام کرے گی سیاسی کام نہیں کرے گی۔‘

’جب سندھ ہاؤس پر حملہ ہوا سپریم کورٹ بیٹھی اور ویک اینڈ ہوتے ہوئے بھی سپریم کورٹ نے اتنا اچھا پیغام بھیجا کہ وہ قانون اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پارٹیز کو موقع دیا ہے کہ ان کے وکیل بھی پیش ہوں اور پیر کو وکیل قانونی نکات اٹھائیں گے۔ بلاول نے کہا کہ ہم عدالت میں ہوں گے ایک ایریا موجود ہے جہاں ہم قانونی اور آئینی لڑائی لڑیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ حکومت اکثریت کھو چکی ہے اتحادی ہوں یا نہ ہوں، اور جہاں تک اتحادیوں سے بات ہو رہی ہے وہ تو آپ نے دیکھی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ او آئی سی کے بعد اپنا موقف دیں گے۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here