پانچ ماہ کے تعطل کے بعد ایران جوہری مذاکرات پیر کے روز ویانا میں شروع ہو رہے ہیں۔ جون میں مذاکرات موقوف ہونے کے وقت سفارت کاروں نے کہا تھا کہ وہ ایک معاہدے کے ‘قریب’ پہنچ چکے تھے۔
ایران اور اہم عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ہونے والی بات چیت جون میں تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔ ایران میں قدامت پسند ابراہیم رئیسی کے عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد بات چیت کا ماحول بہت کچھ بدل گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جون میں آخری دور کی بات مثبت ماحول میں ختم ہوئی تھی۔ لیکن گزشتہ کئی ماہ سے ایران مغربی ملکوں کی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور جوہری پروگرام کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ ایسے میں گوکہ بات چیت دوبارہ شروع ہو رہی ہے لیکن کسی اہم پیش رفت کی امید بہت کم ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بدھ کو کہا تھا کہ جلد کسی سمجھوتے پر پہنچنے اور اس پر عمل درآمد کی گنجائش موجود ہے تاہم ایران کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے راب میلی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے ”تہران کا رویہ ایسا نہیں کہ اچھے نتائج کی توقع کی جا سکے۔”
راب میلی نے مزید کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں امریکا پر جلد واضح ہو جائے گا کہ آیا ایران صرف مزید وقت چاہتا ہے تاکہ اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورت میں امریکا بے کار نہیں بیٹھے گا۔ ”ہم دوسرے اقدامات پر غورکریں گے۔ سفارتی یا دوسرے تاکہ ایران کی ایٹمی خواہشات کے معاملے سے نمٹا جا سکے۔”
راب میلی کا کہنا تھا کہ پیر کو آسٹریا کے دارالحکومت میں بات چیت دوبارہ شروع ہونے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ اگرایران نے ان مذاکرات کو اپنا جوہری پروگرام تیز کرنے کے لیے بہانے کے طورپر استعمال کیا تو امریکا اور اس کے شراکت دار اس پر دباو ڈالیں گے۔
مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف ایران جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اس کی جوہری سرگرمیاں بند کرنے کے عوض میں بعض اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ تاہم یہ معاہدہ سن 2018 میں اس وقت تعطل کا شکار ہوگیا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو یک طرفہ طورپر اس سے الگ کرلیا اور ایران پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔
اس کے بعد ایران نے بھی اپنی جوہری سرگرمیاں شروع کردیں اور مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے لگا۔ حالیہ مہینوں میں اس نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مشاہدین کو اپنی جوہری تنصیبات کی جانچ کرنے کی اجازت بھی محدود کر دی تھی۔
گزشتہ ہفتے آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گروسی نے ایجنسی اور ایران کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے تہران کا دورہ کیا۔ انہوں نے تاہم واپسی پر کہا کہ متنازعہ امور کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی ”پیش رفت” نہیں ہوسکی۔
آئی اے ای اے نے 17 نومبر کو اپنی سہ ماہی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتہائی افزودہ شدہ یورینیم کے ذخیرے میں مزید اضافہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ انتہائی افزودہ شدہ یورینیم کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
پیر کے روز شروع ہونے والے جوہری مذاکرات کو کسی طرح کی رخنہ اندازی سے بچانے کے لیے مغربی ملکوں کے سفارت کاروں نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایران کی نکتہ چینی کے حوالے سے کسی قرارداد کی منظور کے لیے دباو نہیں ڈالیں گے۔
تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ اگر تعطل برقرار رہتا ہے ہے تو وہ دسمبر میں بورڈ کی ایک خصوصی میٹنگ طلب کرسکتا ہے۔
ویانا میں پیر کے روز شروع ہونے والی میٹنگ میں ایران کے علاوہ برطانیہ، چین، جرمنی، روس اور فرانس کے سفارت کار شرکت کررہے ہیں۔ امریکا مذاکرات میں بالواسطہ طورپر شریک ہے۔
دریں اثنا اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لیپیڈ پیرکے روز برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور وزیر خارجہ لز ٹروس سے جبکہ منگل کے روز فرانسیسی صدر ایمانویل میکروں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ اسرائیل سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کا سخت مخالف رہا ہے۔