محراب پندرانی قتل اور ضلع ڈیرہ غازی میں چھوٹی بچی رابعہ بلوچ کے خاندان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچ کونسل کی طرف سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور متاثرین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مظلوم بلوچوں کا خون سستا ہوچکا ہے جسے آئے دن مختلف ناموں سے بہایا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا ریاست میں طاقتور کو کھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ اپنی دولت کی بل بوتے پر کمزروں پر مظالم ڈھاتے ہیں اور انھیں اپنے جبر کا نشانہ بناتے ہیں۔سرمایہ مزدوروں کو انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔
انھوں نے بس مالکان اور دیگر ٹرانسپورٹ کمپنیوں سے اپیل کی کہ وہ محراب پندرانی کے قاتلوں کی حمایت کرنا چھوڑ دیں تاکہ ملزمان کو قرار واقعی سزا مل سکے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ملزم کو سزا دینے سے جس بیوہ ماں نے اپنا بیٹا کھویا ہے اس کا بیٹا تو واپس نہیں آئے گا لیکن شاید انصاف ملنے سے اس کو سکون ملے۔
واضع رہے کہ محراب پندرانی حاجی دولت خان لہڑی کے پاس ملازم تھے جس نے 35 لاکھ روپے کی چوری کے الزام میں 13 سالہ محراب پندرانی اور اختر علی لہڑی پر بد ترین تشدد کیا جس کی وجہ سے محراب پندرانی کی موت واقع ہوگئی۔
حاجی دولت لہڑی کے تشدد کی وجہ سے 13 سالہ محراب کی حالت خراب ہونے پر ان کا سندھ کے ایک ہسپتال میں علاج کرانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔قاتل تاحال قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔
بواٹہ فورٹ منرو ضلع ڈیرہ غازی خان بلوچستان میں چھوٹی بچی رابعہ بلوچ کے گھرپر جرائم پیشہ افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ان کے گھرکے تین افراد جن میں ان کے والدین اور داداشامل ہیں قتل ہوئے اور تین زخمی ہوئے۔ پولیس تاحال مجرمان تک پہنچنے میں ناکام ہے۔
ان واقعات کے خلاف بلوچ یکجہتی اور سول سوسائٹی کی طرف سے نصیر آباد، اسلام آباد، شال، کیچ، گوادر اور کراچی میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
بلوچ تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جرائم پیشہ افراد کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔