کوہِ سلیمان میں قدرتی وسائل کی لوٹ مار کی تیاریاں نوخاف ہدیانڑی –

0
933

لفظ ” لوٹ مار” سے شاید کچھ پڑھنے والے حتمی رائے قائم کرکے تحریر آخر تک نہ پڑھ سکیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ کوہ سلیمان میں آج تک تیل و گیس سمیت دیگر جتنے بھی وسائل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں وہ تمام کے تمام مقامی آبادیوں کی قسمت بدلنے میں ناکافی ثابت رہے ہیں۔ اب مثال لے لیجئے ڈیرہ بگٹی سوئی کی جو کہ دہائیوں سے پاکستانی صنعت کا پہیہ چلا رہی ہے اور پچھلے ہی دنوں وہاں کے مقامی انجینئرز روزگار کے حصول کیلئے ان کمپنیوں کے آگے سراپا احتجاج رہے ہیں۔بلکل ویسی مثال ضلع کوہلو میں حالیہ عرصے میں تیل و گیس کی کھوج شروع ہوچکی ہے اور دوسری جانب مقامی متحدہ جرگہ نے کمپنی کی استحصالی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ شنید ہے کہ یہاں بھی تیل و گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہونگے اسکی خاص وجہ یہاں کی

Rich Formation

یعنی قیمتی پہاڑ ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ اب کوہ سلیمان کی خوبصورت چوٹیوں میں شمار ہونے والے یکبہی اور کوہ ماڑی پر کامیاب ابتدائی سیزمک سروے کے بعد عنقریب ڈرلنگ رِگ لائے جا رہے ہیں۔ جن سے باقاعدہ طور پر کنووؤں کی کھدائی شروع کردی جائے گی۔ یاد رہے کہ یکبہی کا لیز اٹک گروپ کی کمپنی پاکستان آئل فیلڈ لمیٹڈ

(POL)

جبکہ کوہ ماڑی کا لیز ریاستی کمپنی

OGDCL

نے خود ہی لے رکھا ہے۔

دوسری جانب اگر بین الاقوامی قانون کے حوالے سے دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) جو دنیا بھر میں ہر قسم کے کاروبار و سرمایہ کاری کے اصول و ضوابط طے کرتی ہے۔ کے کنونشن 1981؁ کے آرٹیکل 16 کی شق سی، -164,آر 155 کے مطابق ایسی تمام تر کمپنیاں اپنی ورک پلیس کے گرد قدرتی ماحول اور مقامی آبادیوں سمیت ورکرز کی ہر طرح سے حفاظت کی پابند ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بھاری جرمانے یا پھر کمپنی بطور سزا مکمل بند کی جا سکتی ہے۔

مملکت خداداد(بخشو) چونکہ آئی ایل او کا رکن ممالک ہے اس لیئے 1973؁ کے آئین میں ماسوائے پانچ کلومیٹر ریڈیس کے اندر کی نفوس کی ذمہ داری کے علاوہ ایسی کمپنیوں کو (کارپوریٹ سوشل رسپانسبیلیٹی) پورا کرنے یا نہ کرنے کی مکمل چھوٹ حاصل ہے۔
اب ایک طرف ان ساہوکار کمپنیوں کی ماضی کھلی کتاب کی طرح واضع ہے جبکہ دوسری جانب وہ عالمی قوانین بھی موجود ہیں کہ جن کی مکمل اطلاق سے مقامی آبادیوں کی فلاح اور وہاں کے قدرتی ماحول کا تحفظ منسلک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔۔۔!!!
کوہ سلیمان میں پچھلے چند سالوں میں وقت باقی دنیا کی نسبت زیادہ تیزی سے بدلا ہے۔ یہاں کی موجودہ نوجوان نسل باشعور ہوچکی ہے۔ یہاں کے ورنا اپنے قومی وسائل و حقوق سے بخوبی جانکار ہوچکے ہیں۔ اس لیے انکی مرضی و منشا کے بغیر عجلت میں لیا گیا کوئی بھی قدم ان کمپنیوں سمیت حکومت ِ وقت کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہو سکتے ہیں۔۔!
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پراجیکٹس کے باقاعدہ آغاز سے قبل ان کمپنیوں کی طرف مقامی آبادیوں کو درپیش بنیادی مسائل کا تفصیلی سروے کیا جانا چاہیئے۔نام نہاد وڈیروں اور زرداروں کی بجائے تعلیم یافتہ و با شعور نوجوانوں سے عوامی مسائل پر گفت و شنید کا آغاز کرنا چاہیئے کیونکہ بلوچ قوم کی نمائندگی کا فرض یہ نوجوان بخوبی ادا کر رہے ہیں۔
جہاں اربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں تو وہاں چند لاکھ عوامی فلاح کے کام جیسے کہ سکولز، کالجز، تعلیمی سکالرشپ، ر،ؤ پلانٹس، صحت و روزگار پر بھی خرچ ہونے چائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر نام نہاد ” ترقی” کے نام پر ان پراجیکٹس کو بلوچ قوم اپنے وسائل پر ڈاکہ و “لوٹ مار” ہی تصور کرینگے۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here