بلوچ خواتین کی طرح کاش ہمارے مذہبی پیشوا اور لوگ اپنے ذمہداریاں جانتے؟ تحریر سمیر جیئند بلوچ

0
295


بلوچستان کو غلام رکھنے کے خلاف جس طرح بلوچ نوجوان ہر محاذ پر کھڑے ہیں وہاں بلوچ خواتین بھی اپنے اپنی ذمہداریاں توقع سے سے زیادہ سر انجام دے رہی ہیں۔ہم خواتین کے کردار کو مردکے ساتھ شانہ بشانہ کندھے سے کندھا ملاکر چلنے مشکلات کا سامناکرنے کیلے تاریخی تہذیبی حوالے سے ہندوستان میں دیکھتے چلے آرہے ہیں۔انھوں نے ہرقابض کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کرکے اپنی دھرتی ماں سے نکال باہر کرنے میں پیش پیش رہی ہیں۔اس تاریخ کو اٹھاکر حال میں بلوچستان حالات دیکھتے ہیں تو ہمیں دوہزار سالہ وہ ہندومائیں بہنیں یاد آتی ہیں جنھوں نے اپنی بلیدان دیکر اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کیلے اپنی اولاد سمیت دھن قربان کرکے آج ایک آزاد جمہوری مملکت کے وارث بن کر اپنی دھرتی پر آزاد سانس لے رہی ہیں۔وہ مائیں، بہنیں،نوجوان،طالب علم،اساتذہ،مذہبی پیشو ا قابل تعریف ہیں جنھوں نے ہر طبقہ کے سوئے ہوئے،راجاؤوں،پراجاؤوں کو جگادیا۔


آج وہی تصویر بلوچ ماں،بہن،بھائی،اساتذہ کرام،طالب علم،مزدور پیشہ افراد،خانہ بدوش میں دکھائی دے رہاہے،مگر یہاں دو طبقہ کے لوگ خاموش ہیں،اگر بات کرتی بھی ہیں تو وہ دشمن کے حق دشمن کے کامیابی اور اپنوں کو نیچادکھانے کیلے اپنی توانائیاں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔یہاں اس ماں سے پوچھناہے کیا آپ کا زاکرمجید،راشد حسین،آصف پناہ، اٹھائے جاتے،آپ ایسی خاموشی اختیار کرتیں جو آج کر رہی ہیں؟ وہ بھائی باپ ماما قدیر کی جگہ ہوتے ماہ رنگ کی اپنے بیٹے باپ کی چھلنی لاش وصول کرنے بعد بھی کیا قابض ریاست کے گن گاتے؟ جس کا آپ کے سرزمین سے استحصال،لوٹ مار کارشتہ ہے۔؟


یقینا وہ دشمن کے گیت نہیں گاتے،وہ بھی ان ماں بہنوں،بھائیوں کے قطار میں کھڑے ہوتے جو آج یہ ماں بہنیں بھائی روڈوں پر کبھی پولیس کبھی فوج کبھی خفیہ ایجنسیوں اور ایف سی کے درندوں کے دھکے لاٹھی چارج برسوں سے سہتے چلے آرہے ہیں۔
ماناکہ آپ کا کوئی بھی بیٹا بہن بھائی باپ دشمن کے ہاتھوں لاپتہ نہیں ہے، لیکن آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ گھر میں ہر ایک بلوچ کی ماں لاپتہ ہے،وہ ماں جو ہزاروں سالوں سے آپ کو جیون دیکر پال رہی ہے۔یہاں چاہئے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑ رہاہو یا دشمن کے گود میں بیٹھ کر اپنے ہی ہم خون ہم زبان ہم قوم کا خون بہاکر انھیں دشمن کے خواہش پر زندانوں،اجتماعی قبروں،میں جھونک رہاہے یا ماں بیٹیوں بیویوں کو سڑکوں پر رلارہاہے۔
کیا دشمن کیساتھ دینے والا اس دھرتی کا بیٹابیٹی نہیں ہے۔؟وہ اس دھرتی پر نہیں جنما ہے؟ اسی دھرتی کا نہیں کھاتا؟ یقیناََ وہ بھی اس مٹی کا اتناہی مقروض ہے جتنا ہم اور آپ۔؟
اپنے دھرتی ماں کے حفاظت انھیں دشمن کے قید سے آزاد کرنے،اپنا فرض نبھانے کیلے عالم دین کو چپ کے روزہ کو توڑنا ہوگا۔بلوچ عالم چاہئے کس مسلک،فرقہ سے تعلق رکھتاہو،وہ اپنے بیٹے کا رول اداکریں جو ہندووں کے پوروج پنڈتوں،اور ان کے شاگردوں نے اداکیا تھا۔جو گھر گھر جاکر انقلاب کے دیئے جلادیئے تھے۔آپ کو بھی ہر جمعہ کے خطبہ سے پہلے گھنٹوں،فلسطین کشمیر کے جہاد جہاد کا ڈھول پیٹتے ہیں جب جہاد آپ کے دھرتی ماں کے آزادی ہے تو یہاں کیوں خاموش ہیں،آپ کی ماں بہن بیٹی بیویوں کی عصمت قابض پاکستانی فوج ایجنسیوں کے ہاتھوں تار تار ہورہی ہے یہاں کیوں آپ کاخون سفید پڑ رہاہے۔؟اس میں لال رنگ کیوں غائب ہے۔؟
یہی فرض یہاں کے بااثر سردار نواب،ٹکری،میر،ملک وڈیرہ افسر شاہی پر بھی عائد ہوتی ہے،جتنا حق ہر بلوچ کا اس دھرتی ماں پر ہے ان پر بھی وہی ذمہداری عائد ہوتی ہے،وہ اپنی ماں کی حفاظت اغیار سے کریں،بے شک آپ کو دوسرے کا طریقہ پسند نہیں ہے آپ اپنے طریقے سے اپنی ماں بہن بیٹیوں،بچوں کی حفاظت کریں خود کو پہچانیں اور انھیں بھی درس دیں کہ آپ کون ہو؟ آپ کی بد حالی کاذمہدار کون ہے۔؟ اس نہج تک آپ کو کس نے پہنچائی ہے؟وہ یہ بھی سوچے کہ
کیا وہ بلوچ فوجی ایک لمحہ کیلے سوچتا ہے کہ میری زمین میری ماں مقبوضہ بلوچستان ہے،لاہور،نتھیا گلی،اور ہیرامنڈی نہیں؟
آپ اس فوجی سے بھی پوچھیں جن کے لئے آپ کرایہ پر بندوق اٹھارکھاہے،وہاں آپ کی حیثیت کیاہے۔؟
کیا ایسا نہیں ہے، جب جب بھی آپ کا قابض فوجی سے مباحث چھڑ جاتی ہے وہ آپ کو اپنے ہر بات میں احساس دلانے کیلے طعنہ نہیں دیتاکہ آپ اسکے غلام ہیں یعنی آپ کا مرضی یہاں کام نہیں کرتا ۔؟
لہذا آپ بے شک،ڈاکٹر دین محمد،غفور بلوچ،زاہد کرد،علی اصغر بنگلزئی،رمضان،کبیر مشتاق،ان ماؤوں بہنوں کیلے آواز نہ اٹھائی جن کی عزت فوج کے ہاتھوں لٹ رہی ہے۔؟ مگر اپنی ماں کی عزت تار تار ہونے سے بچانے کیلے تو اٹھیں توڑدیں وہ زنجیریں جو آپ کے کلائی اور پاؤوں کے بیڑیاں بنے ہیں۔توڑدیں وہ غلامی کا خول جس میں آپ کا آزاد ذہن قید ہے۔اس جھوٹی بندھن سے اپنے آپ کو آزاد کریں کہ آپ غلام نہیں اورآپ کا کوئی بھی لاپتہ اور ازیت خانہ میں قید نہیں ہے۔؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here