تحریک آزادی پر ایک نظر – ڈاکٹرجلال بلوچ

0
1015

برطانوی حکومت کی جانب سے 11اگست 1947ء اور 12اگست 1947ء کو بلوچستان حکومت کی جانب سے ملک کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ ابھی بلوچستان حکومت صحیح معنوں میں مستحکم بھی نہیں ہوا تھا کہ 27مارچ1948ء کے دن پاکستانی فوج نے عسکری قوت کے بل بوتے پر بلوچستان پہ قبضہ کرلیا۔پاکستان کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف مکران کے گورنر پرنس آغا عبدالکریم خان نے مسلح جدوجہد شروع کیا، اس کے بعد وقفے سے مزاحمتی عمل کا سلسلہ جاری رہا۔تاآنکہ 21ویں صدی کے شروع ہونے سے دو سال قبل بلوچ آزادی پسندوں نے ایک بار پھر مسلح جدوجہد شروع کی جس کا باقائدہ آغاز کوئٹہ میں قائم چھاؤنی پہ راکٹ حملے تھے جو کبھی کبھار فائر کیے جاتے تھے۔1999ء میں یہ عمل ایک مختلف روپ میں سامنے آیا جہاں کوئٹہ کے علاقے سریاب میں آزادی پسندوں نے گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑادیا۔ لیکن اس وقت تک ان حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کیا۔

غالباً 2000ء کے وسط میں ہونے والا دھماکہ جس میں ریلوے ٹریک کو نشانہ بنایا گیا پہلی مرتبہ آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے اس کی ذمہ داری قبول۔اس کے بعدتنظیم کی کاروائیوں میں کی کسی حد تک تیزی بھی آگئی۔اس دوران قابض ریاست کے سرکاری ادارے بھی کافی متحرک ہوگئے جہاں ہم دیکھتے ہیں 6 جنوری 2001ء میں قلات شہر میں تین بلوچ سرمچاروں کی شہادت کا واقعہ پیش آتا ہے، جہاں ریاست انہیں انڈین خفیہ ایجنسی ”راہ“ کا ایجنٹ قراردیتی ہے۔جبکہ ان بلوچ فرزندوں کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) سے تھا۔

بلوچ جہد آزادی کو اس وقت مزید دوام ملا جب فروری 2002ء بلوچستان میں بلوچ طلباء تنظیم (بی ایس او آزاد) کا قیام بلوچ قومی رہنماء ڈاکٹر اللہ نظر کی قیادت میں عمل میں آیا۔ابھی بلوچ طلباء تنظیم (بی ایس اوآزاد) کے قیام کو بمشکل ایک سال کا عرصہ گزرچکا تھا کہ بلوچ سماج میں پہلی مرتبہ ایک آزادی پسند جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ(بی این ایم) کا قیام شہید غلام محمدبلوچ کی قیادت میں عمل میں آیا جس نے کھلے بندوں مسلح تنظیموں کی حمایت کا اعلان کیا۔اس وقت تک بلوچ سماج میں دو آزادی پسند مسلح تنظیموں کا قیام عمل میں آیا تھا جن میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف)۔ اس دوران آزادی پسند تنظیموں کی کاروائیوں کا محور کوہستان مری، رخشان، بولان، مکران اور چند ایک شہری علاقے جن میں کوئٹہ،کیچ، گوادر، مستونگ، آواران اور خضدار سرفہرست ہیں۔

ایک جانب بلوچ آزادی پسند جماعت بلوچ نیشنل مووومنٹ اور بلوچ طلباء تنظیم (بی ایس او آزاد)قوم کو آزادی کی راہ پہ متحرک کرنے میں مصروف عمل تھے تو دوسری جانب مسلح آزادی پسندوں کے حملے جاری تھے۔ ان حالات کو دیکھ کر قابض ریاست مارچ 2004ء میں ڈیرہ بگٹی میں شہید نواب اکبرخان کے خلاف دشمن متحرک ہوگیا، اس دوران فوج نے شہید نواب اکبرخان کے ٹھکانے کے ساتھ ایک مندر کو بھی اپنی عسکری کاروائیوں کا نشانہ بنایا۔ان حملوں میں 63بلوچ فرزند شہید ہوگئے جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی جو اس وقت مندر میں عبادت کررہے تھے۔

ان حالات کے پیش نظر ڈیرہ بگٹی میں قوم پرست سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا اجتماع منعقد ہوا اس جلسے کے بعد مسلح بلوچ آزادی پسنداور آزادی پسندجمہوری جماعت جو کہ اس وقت تک بلوچ نیشنل موؤمنٹ ہی تھا مزید سرگرم ہوگئے۔اس وقت بلوچ قومی تحریک کی صدا پوری دنیا میں بازگشت کرنے لگی جب بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سرمچاروں نے تین مئی2004 کو بلوچ سرمچاروں نے گوادر میں چینی انجنیرز پر حملہ کیا۔یہ حملہ انتہائی کارگر ثابت ہوا جس کے بعد ایک عرصے تک گوادر میں غیرملکی سرمایہ کاری کے عمل پہ جمود طاری رہا۔

تحریک کا دائرہ کا روز بہ روز وسیع تر ہوتا جارہا تھا جس نے آنے والے دنوں میں قریباً پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ 20اپریل 2006ء کے حملوں کے بعد جن میں 123افرادشہید اور 500زخمی ہوگئے نواب اکبرخان شہید نے بھی پہاڑوں کو مسکن بنا لیا جہاں سے دشمن کے خلاف مسلح کاروائیاں جاری رہیں۔اس دوران اگرچہ بلوچ مسلح تنظیموں کی کارروائیاں عروج پہ تھے تو دوسری جانب قابض ریاست(پاکستان) کی عسکری کارروائیوں میں بھی کافی شدت آگئی تھی۔ایک جانب پاکستان بلوچ مسلح تنظیموں کے ٹھکانوں اور شہری آباد یوں پہ بارود برسارہی تھی تو دوسری جانب سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے خلاف بھی متحرک ہوگیا تھا اسی لیے انہی دنوں قابض ریاست نے خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے جن میں بانک کریمہ بلوچ اوربانک شاری بلوچ سرفہرست ہیں۔ابھی جبرکا یہ سلسلہ تھما نہیں تھا کہ 26اگست 2006ء کو شہید نواب اکبرخان بگٹی قابض ریاست کے ایک شدید حملے میں شہید ہوجاتے ہیں۔شہید نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچ عوام میں غم و غصے کی ایک شدید لہر اٹھی جس کے سبب پورے ایک مہینے تک عوام نے ریاستی تنصیبات نظر آتش اور ریاستی مشینری جام کردیا۔شہید نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت بلوچ قوم کے لیے ایک بہت ہی بڑا المیہ تھا لیکن اس وقت تک بلوچ قومی تحریک بڑی حد تک مستحکم خطوط پہ استوار ہوچکا تھا اسی لیے ایک عظیم رہنماء کی شہادت کے بعد آزادی کے کارواں کو مزید تحریک ملی۔ شہید نواب اکبرخان کی شہادت کے بعد بلوچ سرداروں نے قلات جرگہ طلب کیا اس جرگے میں سیاسی قائدین بھی شامل تھے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔قلات جرگے کے کچھ عرصے بعد3 دسمبر2006ء کو بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے کراچی کے علاقے چاکیواڑہ چوک میں عوامی جلسے کا انعقاد کیا گیا۔

اس جلسے میں سلیمان داؤد خان اور سردار ثناء اللہ زہری نے بھی شرکت کرنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے چاکیواڑہ میں جلسے کا انعقاد ممکن نہیں ہواجس کی اطلاع آپ نے سلیمان داؤد خان اور ثناء اللہ زہری کو دی۔لیکن انہوں نے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو شہید غلام محمد بلوچ نے انہیں حیدری فٹبال کلب لیاری آنے کو کہا۔ شہید غلام محمد بلوچ کلری لیاری کے حیدری بلوچ فٹبال کلب میں چند دوستوں کے ساتھ آغا سلیمان داؤد اور سردار ثناء اللہ زہری کے انتظار میں بیٹھے رہے یہ حضرات تو نہ پہنچ پائے مگر ان کی جگہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے30سے40کے قریب گاڑیاں پہنچ گئے اور آتے ہی انہوں نے حیدری فٹبال کلب کو گھیرے میں لے کر شہید غلام محمد بلوچ اور بی آرپی کے ڈپٹی سیکرٹری شہید شیر محمد بلوچ کو جبری طور پہ لاپتہ کیا۔20ستمبر 2007ء کو شہید غلام محمد بلوچ اور شہید شیرمحمد بلوچ اگرچہ ابھی ریاستی قید میں تھے لیکن انہیں منظرعام پہ لایا گیا اور 10اکتوبر 2007ء کو ان کی ضمانت پہ رہائی ممکن ہوئی۔

انہی دنوں بلوچستان میں براہمداغ بگٹی کی قیادت میں ایک اور آزادی پسند جماعت بلوچ ریپبلکن پارٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔اس کے ساتھ ہی بلوچ ریپبلکن آرمی کے نام سے ایک مسلح تنظیم کی کاروائیاں بھی شروع ہوتی ہیں۔یعنی بلوچ سماج میں آزادی پسندسیاست یک جماعتی نہیں رہا۔مفادات چوں کہ مشترکہ تھے اسی لیے کچھ ہی عرصے بعد ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا قیام عمل میں آتا ہے جسے بلوچ نیشنل فرنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔

اسی سال 20نومبرکو نوشکی کے پہاڑوں میں شہید بالاچ مری بھی دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتا شہید ہوجاتا ہے، شہید اکبرخان کے بعد شہید بالاچ مری کی شہادت تحریک کے لیے دھچکہ تھا، لیکن مسلح اور جمہوری سیاسی عمل جاری رہا۔ ریاستی عقوبت خانوں سے رہائی کے ڈیڑھ سال بعد شہید غلام محمد بلوچ اپنے دوساتھیوں شہید لالا منیر بلوچ اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی رہنما شہید شیرمحمد بلوچ کے ساتھ ریاستی جبر کا شکار ہوتے ہیں جہاں انہیں کیچ میں قائم ایڈوکیٹ کچکول علی بلوچ کے دفتر سے پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکار جبری طور پر لاپتہ کرتے ہیں اور 6دن بعد مرگاپ کے علاقے سے ان تینوں رہنماؤں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔شہید غلام محمد بلوچ اور مرکزی رہنماؤں کی شہادت بلوچ قومی تحریک کے لیے انتہائی بڑا دھچکہ تھا لیکن اس کے باوجود بھی تحریک کا تسلسل برقرار رہا جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ تحریک منظم خطوط پہ استوار ہے۔

شہید غلام محمد بلوچ کی شہادت تک تحریک انتہائی مربوط خطوط پہ استوار ہوچکا تھا جس کا دائرہ کار بلوچ سرزمین کے ساتھ عالمی سطح تک وسعت اختیار کرچکا تھا۔

ء 2009 کے بعد تحریک میں انتہائی شدت پیدا ہوگئی جو اپنے اسی تسلسل کو آج تک نہ صرف برقرار رکھا ہے

بلکہ 2017ء میں آزادی پسندمسلح تنظیموں کا اشتراک عمل اس کومزید تحریک فراہم کررہی ہے۔حالانکہ اس پورے عرصے میں بلوچ قائدین جن میں شہید غلام محمد بلوچ، شہید اکبرخان، شہید بالاچ مری،شہید سدو مری، شہید خالد بلوچ، شہید ڈاکٹر منان بلوچ، شہید لالا منیر، شہید شیرمحمد بلوچ، شہید رسول بخش مینگل، شہید جلیل ریکی، شہید ثنا سنگت سمیت درجنوں رہنما پاکستان کے عسکری اداروں کے ہاتھوں شہید اور جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔ اتنی بڑی تعداد میں قائدین کی شہادت اور جبری طور پر گمشدگی کے باجود تحریک کا یہ تسلسل اس کی کامیابی کی نوید ہے۔ان نقصانات اور موجودہ دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کرچار مسلح آزادی پسند تنظیموں نے ایک اتحاد قائم کرلیا جسے ”براس“ کا نام دیا گیا۔ان آزادی پسند مسلح تنظیموں جن میں بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن گارڈ اور بلوچ ریپبلکن آرمی شامل ہیں ان کا یہ اقدام قومی تحریک میں ایک انتہائی مثبت پیش رفت ہے جس کی ضرورت قوم شروع دن سے محسوس کررہی تھی۔اسی لیے اس عمل کو عوامی سطح پہ بھی کافی پذیرائی ملی۔ اس اتحاد کے بعد مسلح آزادی پسندوں کے حملوں کی نوعیت ہی بدل گئی جہاں تین فدائی حملے ہوئے جن کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیند بلوچ نے قبول کی اس کے علاوہ اس اشتراک میں شامل مسلح تنظیموں کی چند ایک کاروائیاں قابل ذکر ہیں جن میں ایک مکران کوسٹل ہائی وے پر آرمی کے درجن سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا واقعہ اور حال ہی میں گوادر شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پہ قائم آرمی کیمپ پر نہ صرف آزادی پسندوں کا حملہ بلکہ اس میں 16اہلکاروں کی ہلاکت اور کیمپ سے تمام عسکری سامان کا اپنے قبضے میں لینا ایک انتہائی کامیاب کاروائی تصور کیا جارہا ہے۔

موجودہ دور میں ایک جانب پاکستان معاشی طور پر بدحال اور سفارتی طور پہ تنہائی کا شکار ہے تو دوسری جانب بلوچ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی بالخصوص سفارتی عمل اور آزادی پسند وں خاص کر اس اشتراک عمل میں شامل تنظیموں کی کاروائیاں دیکھ ایسا لگتا ہے کہ اب بلوچ قومی آزادی کی تحریک بلوغت کی انتہاء کو پہنچ چکا ہے جو کامیابی کی نوید ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here