اداریہ
بلوچ قوم کوماضی میں بھی حقوق، پانی وروزگار مانگنے پر موت کے گھاٹی میں اتار دیا گیاہے،آج بھی وہی صورتحال ہے۔
بلوچ قوم ستر دہائیوں کے باجود بھی پاکستانی حکام کی اذیت کوش آزار کا شکار ہے۔ اور اس پر نہ دنیا لب کشائی کرتی ہے اور نہ ہی بلوچستان و بلوچ قوم کے آزادی کی جنگ لڑنے والے ا س جنگ کوسفارتکاری امور کے قالب میں ڈھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
اسلام کی پاسداری کے دعویدار پاکستانی فوج رمضان کے مقدس مہینے میں بھی بلوچ قوم کو بھوک وپیاس کی کربلا میں دھکیل کر موت کی عفریت کی نذر کرچکا ہے۔
پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان اور ایرانی زیر قبضہ بلوچستان کے باڈرز یعنی کراسنگ پوائنٹس پر گزشتہ کئی روز سے پاکستانی فوج نے تیل کے کاروبار کرنے والے چھوٹے بیوپاریوں کو روک کرانہیں بھوک و پیاس سے مرنے کے گگار پر پہنچا دیا ہے۔جہاں بھوک و پیاس کی ننگی ناچ سے اب تک چار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان ایریا میں 10 ہزار سے زائدتیل اورمال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔اطلاعات کے مطابق ہزاروں لوگ شدید دھوپ،گرمی اورپانی نہ ہونے کی وجہ سے کرب کی حالت میں ہیں۔
ایران سے تیل اور دیگر اشیائے خوردونوش کی اسمگلنگ دہائیوں سے ایک کاروبار کی شکل میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ اگر چہ یہ ایک اسمگلنگ ہے لیکن اس میں دونوں فریقین ایران اورپاکستان کے ریاستی حکام کا منشا شامل ہے۔یعنی دونوں فریقین کے درمیان اتفاق کایہ ایک تجارتی منصوبہ جاری و ساری ہے۔
لیکن گذشتہ کئی دنوں سے پاکستانی فورسز نے پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کے ایریا میں 10ہزار سے زائد گاڑیوں کو جو وہ ایران جاکر تیل لاد کرآنے والے ہیں کو اس بنیاد پر روکے رکھا ہے کہ انہیں بس دن میں چند گاڑیوں کو جانے کی اجازت ہے اور نمبر آنے پر باری باری انہیں جانے دیا جائے گا۔
لیکن وہاں پھنسے ہوئے ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ یہ سب بہا نہ ہے۔ ڈرائیوروں کے مطابق پاکستانی فورسز نے انہیں جبراً روکے رکھا ہے کیونکہ وہ چھوٹے کاروباری ہیں جبکہ بڑے کاروباری افراد کے گاڑیوں کو بلا روک ٹوک کے جا نے دیا جارہا ہے۔ نہ انہیں کوئی نمبر دی جاتی ہے اور نہ ہی وہ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔
کہا جارہاکہ جن گاڑیوں کو بلا کسی روک ٹوک کے جانے دیا جارہا ہے وہ اصل میں پاکستانی فوج کے ہمنوا اور کاروباری پارٹنرز ہیں۔جبکہ چھوٹے کاروباری افراد سے انہیں بس ہزار،پانچ سو کا بھتہ مل جاتا ہے لیکن بڑے کاروباری گاڑیوں سے وہ زیادہ تیل درآمد کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کھربوں روپے کا بزنس ہوتا ہے۔
سول میڈیا میں متعددایسے تصاویر،ویڈیواور آڈیو فوٹیج زیر گردش ہیں جن میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فورسز نے انہیں جبراًروک رکھا ہے اور انہیں نہ ایران جانے دیا جارہا ہے اور نہ ہی واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی جارہی ہے بلکہ اس پر مستزاد فورسز انہیں اس تپتی دھوپ میں اوراس پتھریلی زمین پر جہاں سورج آ گ برسا رہی ہے اور نیچے زمین کی گرمی کی تپش ہے۔ پانی و بھوک سے نڈھال ان بے بس و لاچار افراد سے باڑ لگانے کے بیگار کا کام لیا جارہا ہے۔
بارڈر میں پھنسے ان افراد سے فورسز باڑ لگانے سمیت اپنے کیمپ کی مرمت و دیگر بھاری بھرکم کام لے رہا ہے اور بدلے میں ایک بوند پانی بھی نہیں دے رہی۔ جبکہ کئی افراد ایک ایک بوند پانی کی تلاش میں گھڑے کھود رہے ہیں تاکہ ایک بوند پانی میسر آئے اور وہ زندگی جینے کی آس کو برقرار رک سکیں۔
موجودہ حکومت اور کورونا نے جہاں لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم کردیا ہے وہاں بلوچستان اور یران کے درمیان جو تجارت کا کام چل رہا ہے اور لوگ اس سے دو وقت کی روٹی کمارہے ہیں تو پاکستانی فوج اورریاست مدینہ کے دعویداروں کو یہ راس نہیں آئی اور انہوں نے ہزاروں بلوچوں کوتپتی دھوپ میں بھوک وپیاس کی عفریت کے حوالے کردیا ہے تاکہ بلوچ نسل کشی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔
ریاست مدینہ کے دعویدار رمضان کے مبارک مہینے میں جہاں ایک طرف آئے روز بلوچستان کے چھپے چھپے میں بلوچوں پر لشکر کشی کر رہی ہے تو دوسری طرف نان شبینہ کے محتاج بلوچ جب ایران سے کچھ سامان لاتے ہیں تو کبھی ایرانی فورسز ان کو فائرنگ کر کے شہید کر دیتی ہے تو کبھی پاکستانی فوج کی ننگی جارحیت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
اب ریاست مدینہ اوراس کے والی فوج نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ایران بلوچستان بارڈر پرہزاروں کی تعداد میں لوگ بھوک و پیاس و سخت گرمی میں بے یار و مددگار ہیں۔ حاکم وقت کی فوج تو پنجاب سے ہے اس سے کسی قسم کی خیر کی توقع تو نہیں رکھی جاسکتی مگر مقامی انتظامیہ کے لوگ جو بلوچ ہیں یا نام نہاد پارلیمانی ایجنٹ ہیں،انہیں بھی ہزاروں بلوچ کی زندگیوں سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ جئیں یا مریں۔
ایران بارڈر کی بندش اور کاروباری افراد کو روکے رکھنے کیخلاف ضلع کیچ، ضلع گوادر اورضلع چاغی میں لوگ سراپا احتجاج ہیں اوروہ ریاستی فورسز کی اس عمل کو روزگار اور نان ِ شبینہ چھیننے کی مترادف قرار دیکر فوری طور پر بارڈر کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بلوچ قوم کے لیے یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان کو کسی صورت بھی بلوچ قوم سے ہمدردی نہیں،وہ قابض ہے اور صرف بلوچ سرزمین کی ساحل و وسائل سے اسکا مطلب ہے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی قبضہ سے لے کر آج تک بلوچ پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں رہا ہے۔
اس طرح کی ظلم و سفاکیت اوراذیت کوش صورتحال کودیکھتے ہوئے ہر بلوچ کو اپنی قومی ذمہ داری کااحساس ہونا چائیے اور قابض ریاست کے خلاف قومی آگاہی کے لیے جستجو کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق مزاحمت کرنا چائیے۔کیونکہ حق ِحاکمیت مانگو تو موت،پانی وروزگار مانگو تو موت، حق و سچائی کی بات کرو تو موت اورعلم و آگاہی کی بات کرو تو موت،پھر کیوں نہ ہم اس موت کو خود چنیں جو ہماری قومی بقا اور آنے والی نسلوں کے درخشاں مستقبل کے لیے ہو۔