میں عورت اور میرا معاشرہ ۔ازقلم : سمعیہ حنیف

0
261

اس معاشرے کے بارے میں سوچتی ہوں تو دماغ مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے, نسیں پھٹنے لگتی ہیں۔ اس گھٹن زدہ, استحصالی اور جبری معاشرے میں جہاں ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت استحصال اور جبر کے شکنجے میں پھنسے زندگی گزار رہے وہیں عورت دوہرے جبر و استحصال میں گری زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ گویا عورت ایک انسان نہ ہو بلکہ کوئی
man made machine
ہو جس کا ریموٹ مرد کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے جب, جیسے اور جہاں چاہے استعمال کر سکتا۔ عورت کے جسم سے نکل کر, عورت کا استحصال کر کے, عورت پر حکمرانی کرنے والا یہ معاشرہ بلکل بھول گیا ہے کہ معاشرتی تعمیر و ترقی میں مرد و عورت دونوں برابر ہیں۔ اگر ان میں سے ایک کو بھی نظرانداز کیا گیا تو یہ تعمیر و ترقی کسی صورت ممکن نہیں۔
اس معاشرے میں ریپ, قتل و غارت, ڈکیتی, بچوں سے جنسی زیادتی, جبر, ذہنی اور جسمانی تشدد غرض کوئی بھی برائی دیکھ لیں سب میں مین کردارمردوں کا ہی نظر آئے گا لیکن پابندیاں صرف عورتوں پر ہی لگائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ریپیسٹ, قاتل, ڈاکو, دہشت گرد ہر طرح کے ظالم و جابر سرِ عام دندناتے پھرتے ہیں اور عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق کی مانگ پر اذیتیں دی جا رہی ہیں!۔

میرے معاشرے کی عورت جب ملازمت کے لیے باہر نکلتی ہے تو ملازمت دینے والے کی طرف سے یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ اسے بھی خوش کیا جائے بصورتِ دیگر اس کام کے لیے لڑکیاں بہت ہیں!! اور پھر میرے معاشرے کی وہ ضرورت مند عورت بدکردار کہلاتی اور مرد تو مرد ہے! بس یہی وجہ ہے کہ عورت کو اپنے اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے بھی ملازمت کی اجازت نہیں ملتی کیونکہ معاشرہ خراب ہے!
میرے معاشرے کی عورت پبلک پلیس پر کھڑے ہو کر بات تک نہیں کر سکتی کیونکہ معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا پبلک پلیس تو مردوں کے لیے ہیں عورت اگر بول پڑی تو اسکا کردار خراب ہو جانا حتمی ہے!

میرے معاشرے کی معصوم لڑکیوں, عورتوں کو آئے روز جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا اور معاشرہ اس کے ردعمل میں بجائے عورتوں کو بااعتماد اور مضبوط بنانے کے ان پر پابندیاں اور سخت کر دیتا, پڑھائی چھڑوا کر گھر بیٹھا دیا جاتا, اکیلے باہر یہاں تک کہ اپنے ہی شہر میں جانے پر پابندی عائد ہو جاتی ہے, چھوٹی عمر میں جبری شادی کروا دی جاتی ہے۔

اگر پہلے جنسی زیادتی کیس پر ہی عورتوں اور بچیوں کے لیے جوڈو کراٹے اور ٹریننگ سینٹرز کھول دیے جاتے تو آج میرے کالج کی کسی بھی لڑکی کو کوئی ڈرائیور ہراساں نہ کر سکتا! میرے گاؤں کی کوئی لڑکی خودکشی نہ کرتی! میرے باغ کی معصوم کلیوں کو مسجد, مدرسے جیسی مقدس جگہوں پر مسلا نہ جاتا! میرے شہر کی بیٹیاں گینگ ریپ کا شکار نہ ہوتی! ملازمت کے لیے باہر نکلنے والی میری ضرورت مند بہن کی طرف کوئی بری نظر سے دیکھنے کی جرت نہ کر سکتا!
عورت اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ خود نہیں کر سکتی! کہاں تک پڑھائی کرنی, شادی کب اور کس سے کرنی, باہر کام کرنا ہے یا صرف گھر سنبھالنا اس سب کا کنٹرول مردوں کے ہاتھ میں ہے۔ عورتوں کو کیا کرنا چاہیے کیا نہیں یہ پیمانہ مردوں کو بنانے کی قطعاً ضرورت نہیں عورتیں کیا چاہتی ہیں انھیں وہ کرنے کا حق دیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here