پاکستان میں پائلٹ لائسنس کے اجرا میں ملوث 6 افراد کو گرفتار

0
285

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے کمرشل پائلٹس کے ‘مشکوک’ لائسنسوں کی تحقیقات مکمل کرکے 40 پائلٹس، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی سی اے) لائسنس برانچ کے 8 عہدیداروں اور ایک نجی شخص کے خلاف تین مقدمات درج کرکے 6 افراد کو مبینہ طور پر مشکوک پائلٹ لائسنس اسکینڈل میں ملوث ہونے پر گرفتار کرلیا ہے۔

ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی کی جانب سے گرفتار ہونے والوں میں ایک پائلٹ اور سی اے اے کی لائسنس برانچ کے پانچ اہلکار شامل ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

گرفتار ہونے والے افراد میں سی اے اے لائسنسنگ برانچ میں قائم مقام ایڈیشنل ڈائریکٹر خالد محمود، سینئر جوائنٹ ڈائریکٹرز لائسنس برانچ فیصل منظور انصاری اور آصف الحق، ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنس برانچ محمد محمود حسین، ایچ آر لائسنسنگ برانچ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ عبد الرئیس اور پائلٹ محمد ثقلین علی شامل ہیں۔

ایوی ایشن ڈویڑن نے سی اے اے کے 5 عہدیداروں کے خلاف مقدمات ایف آئی اے کو بھیجے تھے تاکہ فلائٹ عملے کے لائسنس کے اجرا میں غلط کاموں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جاسکے۔

عدالت عظمیٰ نے اس وقت کے سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی تھی کہ وہ فلائٹ عملے کے لائسنس کی جانچ کے عمل میں ضابطے کی خلاف ورزیوں/بے ضابطگیاں کے معاملے کو دیکھیں اور اس وقت کے سیکریٹری ایوی ایشن نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک آزاد حقائق تلاش کرنے کی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی نے سی اے اے کے آئی ٹی/کمپیوٹر نیٹ ورک کے عہدیداروں کی جان بوجھ کر خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی تھی اور پائلٹ لائسنسنگ کے عمل سے متعلق کمپیوٹر پر مبنی ٹیسٹ تک غیر مجاز رسائی کی فراہمی یا سہولت فراہم کرنے میں ان کی شمولیت کی نشاندہی کی تھی۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے کیے گئے چند پائلٹس کی نجی سماعت کے دوران فلائنگ اکیڈمی کے ایک سابق ملازم کی نشاندہی بڑے مجرم کے طور پر کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو ‘مشکوک’ قرار دیتے ہوئے انہیں گراو¿نڈ کردیا تھا۔

وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ‘جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں’۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراو¿نڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں مختلف بین الاقوامی ایئرلائنز کی جانب سے بھی پاکستانی پائلٹس کو گراو¿نڈ کرنے کے واقعات دیکھنے میں آئے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here