شہید بارگ جان – تحریر:۔ ڈاکٹرجلال بلوچ

0
419

زندگی کے بازار میں لاکھوں نہ سہی ہزاروں انسانوں سے واسطہ ضرور پڑتا ہے پران میں سے چند ایک اپنے کردار کی وجہ سے ایسا مقام بناپاتے ہیں جس کے نقوش انسانی ذہن پہ مہر ِ فطرت بن جاتے ہیں۔انسانی ذہن پہ نقش ان کے یہی آدرش اور عمل، سماج میں ایسی درسگاہ ہوتی ہے جو قوموں کے لیے نوید صبح کا مشعل تھام کے مقصد کی جانب رہنماء کردار ادا کرتی ہے۔

اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم اور سماج کواس کی منزل تک پہنچانے میں انہی کرداروں کا بنیادی عمل دخل ہوتا ہے۔

اگرچہ وہ جسمانی طور پر جدا بھی ہوں لیکن ان کے آدرش اور ان کا کردار آنے والوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوتے ہیں۔جس کی روشنی میں آنے والی نسلیں اپنی راہوں کا تعین کرنے میں کبھی تذبذب کا شکا ر نہیں ہوتے۔ایسے کرداروں کی جب ہم زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کے کارناموں کی وجہ سے وہ دوسروں سے منفرد نظرآتے ہیں۔ان کی یہی انفرادیت انہیں تاریخِ انسانی میں سب سے نمایاں مقام عطا کرتی ہے جہاں ان کی اسی انفرادیت کے پیش نظر لوگ ان کی طرح بننے کی کوششوں میں مگن رہتے ہیں۔یہی دراصل ان کاحاصل ہوتا ہے کہ جن راہوں کو انہوں نے روشنی عطاء کی،ان راستوں کومنورکرنے والی قندیلیں سدا اسی طرح روشن رہیں۔

انہی کرداروں میں سے جن کا نظریہ اور فکر کامیابی کی نوید ہوتی ہے ایک کردار شہید بارگ جان(نوراللہ)بھی تھا۔ جن سے شناسائی دسمبر2014ء میں ہوئی۔سادہ مزاج،چہرے پہ ہمہ وقت مسکراہٹ لیے،کچھ پاگل۔۔۔ہاں پاگل کہنا بجا ہوگا کہ وہ ہروقت وہ دھرتی ماں پہ نازاں رہتے ہوئے بس مادر وطن کے عشق میں مگن تھا۔۔۔دھرتی سے اس کے والہانہ عشق نے اسے خود سے بیگانہ کردیا تھا۔ ایک اجتماع کی خوشحالی کے لیے وہ اس سرزمین کو جنت کا سما دینا چاہتا تھا۔ھرتی کو وہ دوبارہ ماضی کی جانب لے جانے میں مگن تھا،اس ماضی کی جانب جہاں اس خطہ بے نظیر پہ ہمارے پرکھوں کی حاکمیت ہوتی تھی۔وہ اسی خوشحالی کا متمنی تھا جس میں قوم آزاد تھا۔پر موجودہ حالات میں قوم کی غلامی اور دشمن کے قہر نے اس فرزند مہر و وفا میں جذبہ آزادی کو مزید پروان چڑھایا۔

اسی جذبے کے تحت توو ہ دیوانہ وار دھرتی کی خدمت پہ مامور تھا۔مادر وطن کی خدمت،قوم کے لیے ایک روشن مستقبل کے اس سفر میں شہید بارگ کے لیے زمستان کی یخ بستہ ہوائیں اور گرما کی جھلسا دینے والی گرمی میں تمیز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔وہ تو ان موسموں سے بھی عشق کرتا تھا۔۔۔ہاں شاید وہ جانتا تھا کہ یہ موسم بھی بلوچ دھرتی کی دین ہیں جن کے پروان چڑھتے ہیں گلزمین اور حسین ہوجاتی ہے۔

بارگ جان کیا عجیب شخص تھا جس کا اوڑھنا بچھونا دھرتی اور اس کے باسی، اس کی باتوں کا محور یہی اور سب سے بڑھ کر اس کا کردار اس کی سوچ و فکر کا مکمل ترجمان تھا۔۔۔کچھ ایسا تھا دھرتی کا یہ دیوانہ فرزندیا شاید اس سے بھی بڑھ کر۔

اسی لیے نگاہیں اکثراب بھی اسے ڈھونڈتے ہیں اور صدا ئیں بازگشت کرتی ہیں کہ اے بارگ تو کہاں چلا گیا یار؟تجھے تو ابھی ان صحراہوں، پہاڑوں اور میدانوں کا طواف کرناتھا، تجھے لُوس کی فضاؤں میں مزید نکھارپیدا کرنا تھا، تجھے رخشان کو دشمن کے لیے قہر بنانا تھا، ان کے لیے۔۔۔ جنہوں تیرے راسکوہ کے سینے میں لاکھوں چید کرڈالیں۔۔۔ہاں بارگ جان انہیں ان کے انجام کو پہنچاتھا۔پر تو ہمیں چھوڑ کر میرل جان کے پاس چلاگیا اور راسکوہ اب بھی جل رہا ہے،اس کی تپش سے پورا بلوچستان اٹھاہے سنگت۔یہ تو بھی جانتا تھا کہ راسکوہ کے زخم بنا دشمن کی شکست کے مندمل نہیں ہوسکتے۔ تجھے اس دیش کی ضرورت تھی، تجھے دھرتی ماں کے ان فرزندوں کی پکار پہ آج بھی لبیک کہنا تھا جو ازل سے آتش نمرود میں جل رہے ہیں۔۔۔ پر مندیل باندھ کے تو ابدی سفر پہ چل نکلا۔۔۔اس سفر پہ جس کی تیاری اس راہ کے راہی روز اول سے کرتے ہیں پرتیرے جیسوں کا اتنی جلدی یہ رخت سفر باندھنا دل کو بہت گراں گزرتا ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس راہ کے مسافر اسی منزل پہ جا کے مسکن بناتے ہیں جس معراج پہ آج تیرا آنگن ہے پر تیرے جیسوں کے جانے سے دل کا رنجیدہ ہونابھی فطری سی بات ہے۔دل کی رنجیدگی اپنی جگہ پر اس حقیقت سے تو دنیا روشناس ہے کہ تو نے منزل کو پالیا اور ابد تک ہمارے آکاش میں ایک روشن ستارہ بن گے جگمگا تے رہوں گے۔

جدائی کایہ احساس تیرے کردار کی وسعت کو ظاہرکرتی ہے بارگ جان ورنہ تو زندگی کے اس سفر میں نہ جانے کتنوں سے تعلق استوار رہا۔پر یار تو بھی شہید حکیم جان، شہید رحمت اللہ شاہین، شہید کریم جان، شہید علی شیرکرد اور ان جیسے عظیم ہستیوں کی طرح جو راہ حق کے دلدادہ تھے دل پہ انمٹ نقوش چھوڑگیا۔ایسے نقوش جنہیں بیان کرنا محال ہے۔بس فقط اتنا کہوں گا کہ تیرے جیسوں کے کردار میں راز ِ مقصد پنہاں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here