جغرافیائی حیثیت کو بدلنے میں پیچیدگیاں – جنید کمال

0
246

وزیرِ اعظم پاکستان نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے،عبوری صوبہ گلگت بلتستان 2011 سے عملی شکل میں موجود ہے کچھ نیا نہیں ہوا ہے،

عبوری صوبے کے اسٹیٹس کے باوجود گلگت بلتستان کی حیثیت متنازعہ ہی رہے گی،گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا،

عبوری صوبہ بنانے کے پیچھے قابض ریاست کا یہ موقف رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو صوبہ بنا کر حقوق دیے جائیں گے،
ایک تو گلگت بلتستان گزشتہ 73 سال سے پاکستان کے زیرِ قبضہ ہے اور وہاں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ مقامی لوگوں کو کسی قسم کے حقوق نہیں دیے گئے تو صوبہ بننے سے حقوق کیسے مل جائیں گے یہ تو وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں اضافے کا ذریعہ بنے گا،حقوق دینے ہیں تو پھر یہ فیصلہ کیا جائے کے گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے وسائل پر مکمل اختیار دیتے ہیں۔اور انھیں اپنی مرضی کا سیاسی اور معاشی نظام تشکیل دینے کا اختیار دیتے ہیں،۔

حقوق کی آڑ میں اپنے قبضے کو مستحکم کرنے جیسے عزائم لیے قابض یہ بھول گیا کہ بلوچستان کو 1970 میں صوبہ بنایا گیا تھا بلوچوں کے وسائل لوٹنے کے علاوہ انھیں کون سے حقوق مل گئے ہیں جو گلگتیوں کو دینا چاہتے ہو،سندھیوں اور پختونوں کو کتنے حقوق دیے ہیں،

گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے میں پاکستان بہت ساری داخلی پیچیدگیوں میں پھنسا ہوا یے جو رکاوٹ پیدا کرتی ہیں،
بلوچستان اس وقت قابض پاکستان کی ایسی دکھتی رگ ہے جس کا علاج آزادی ہے اور صرف آزادی، بلوچ قومی تحریک فتح کے حتمی مراحل کی طرف گامزن ہے،پاکستان اگر گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بناتا ہے تو پاکستان کو اپنے 1973 کے آئین میں موجود جغرافیائی حیثیت کو بدلنا پڑئے گا پاکستان اگر اپنی موجودہ جغرافیائی حیثیت کو بدلے گا تو بلوچوں کو وہ آزادی سے نہیں روک سکتا،بلوچ تحریک آزادی یک دم ایک نئی اور فاتحانہ سمت اختیار کر جائے گی،

چائینہ اپنے ریاستی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان پر یہ دباو بڑھا رہا ہے کہ اس کا منصوبہ سی پیک گلگت سے گزرتا ہے لہذا گلگت کی متنازعہ حیثیت کو ختم کیا جائے،پاکستان داخلی طور پر شکنجے میں کستا جا رہا ہے،

اگر گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے تو بلوچستان ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر بلوچستان ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر سی پیک کا مین ھب گوادر ہے پاکستان اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،

ان بدلتے حالات میں پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان اور بلوچ عوام کی جدوجہد میں اشتراک وقت کی عین ضرورت ہے،ان تحریکوں میں نظری فکری اور عملی بنیادوں پر جڑت ہی ان دونوں علاقوں کے عوام کی نجات کا موجب بن سکتی ہے،
بلوچ قومی تحریک کے رہنماوں کو بھی دوبارہ سے سوچ بچار کرنا ہو گی کہ چین کے اپنے ریاستی مفادات ہیں جن کے لیے وہ پاکستان کو استعمال کر رہا ہے وہ پاکستان کے ہاتھوں استعمال نہیں ہو رہا، بلوچ اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے چاہینہ کے ساتھ معملات طے کر سکتے ہیں،بلوچ اپنی تحریک کو لیکر ایسے مراحلے میں داخل ہو چکے ہیں کہ سی پیک منصوبے میں اس وقت بڑی رکاوٹ بلوچ ہی ہیں اس صورتحال سے چین بھی با خوبی واقف ہے،سی پیک منصوبہ کو لیکر پاکستانی ریاست کو بلوچوں نے عملاَ بے بس کیا ہے،بلوچ اس طاقت میں ہیں کہ وہ چاہینہ سے قومی تحریک کے مفاد میں بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں،۔

اگر اس وقت بلوچ اور پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کی تحریکوں میں جڑت پیدا ہو تو مشترکہ دشمن کو ہر پہلو پر کمزور کیا جا سکتا ہے،ایسی حکمت عملی اور پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے چین اور پاکستان کے درمیان موجود ہم آئنگی کو کاری ضرب لگائی جا سکے،
بدلتے حالات اور واقعات کے تناظر میں حکمت عملی کے سوال کو دوبارہ سے معروض کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے،اور یہ زمہ داری اس وقت بلوچوں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے،جو فتح اور شکست کے فیصلہ کن مراحلے پر ہیں،اور خطے کی محکوم و مظوم اقوام کی تحریکوں کے لیے مشعل راہ اور رہنمانہ حیثیت رکھتے ہیں،ان کے پاس تحریک موجود ہے جبکہ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کے پاس کوئی تحریک موجود نہیں بس صرف قابض کے خلاف نفرت موجود ہے جس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے،تحریک ابھی ابتدائی مراحلے سے بھی پیچھے ہے، ابھی تو یہ مراحلہ طہ نہیں ہوا کہ جدوجہد کس کے خلاف کی جائے؟ ہمارا دشمن کون ہے؟ان سوالات کی اب سمجھ آ رہی ہے اب یہ بحث بن رہی ہے اور نوجوان یہ سمجھنا شروع ہوئے ہیں کہ ہمارئے اوپر قابض پاکستان ہے اور ہماری جدوجہد اسی قابض کے خلاف بنتی ہے،
یہی وہ سوال ہے جو بلوچ اور پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کی جدوجہد میں اشتراک پیدا کرتا ہے کہ جب دشمن مشترک ہے تو جدوجہد بھی مشترک بنتی ہے،۔

خاص کر مقبوضہ کشمیر اورگلگت بلتستان کے طالب علم رہنماؤں کو اس حوالے سنجیدگی سے غور کر کے اپنے دشمن پاکستان کے خلاف علمی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here