سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس میںکیپٹن صفدرکی گرفتاری کیخلاف کمیٹی بنانیکا اعلان کیا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے متعدد بار مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کو ‘جھوٹا’ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ پولیس قانون کی پابند ہے اور مقدمہ کوئی بھی داخل کروا سکتا ہے، تاہم جس دوران پولیس اپنی کارروائی کر رہی تھی تو کئی اور باتیں سامنے آئی ہیں جو ’تشویشناک‘ ہیں۔ ’ان تشویشناک باتوں کے لیے ہم نے کابینہ کے رفقا سے مشاورت کی اور یہ فیصلہ ہوا کہ حقائق سامنے آنے چاہییں، جن کے لیے ایک باقاعدہ انکوائری ہونی چاہیے۔‘
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’فیصلہ کورٹ نے کرنا ہے، تفتیش پولیس کرے گی، میں صرف حقائق آپ کو بتا رہا ہوں۔‘
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس پاکستانی میڈیا نے لائیو دکھائی اور تمام نظریں یہ سننے کے لیے بے تاب تھیں کہ وہ آئی جی سندھ مشتاق مہر کے بارے میں کیا کہتے ہیں کیونکہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے پیر کو یہ کہا تھا کہ انہیں وزیر اعلیٰ نے بتایا ہے کہ آئی جی سندھ کو صبح چار بجے سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا جہاں ایڈیشنل آئی جی پہلے سے موجود تھے اور وہاں ان سے کیپٹن صفدر کے وارنٹس پر دستخط کرائے گئے۔
تاہم وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں اس موضوع پر براہ راست کوئی بات کی اور نہ بعد میں سوال و جواب کے سیشن میں صحافیوں کے اصرار کے باوجود اس بارے میں کسی سوال کا جواب دیا۔
یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو محمد صفدر، ان کی اہلیہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماو¿ں اور کارکنوں نے مزارِ قائد پر حاضری دی تھی۔
اس دوران کیپٹن (ر) صفدر بانی پاکستان کی قبر کی جالی کے اندر کھڑے ہو کر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیے۔
19 اکتوبر کی صبح کو کراچی پولیس نے ان کے خلاف درج ایک مقدمے کو بنیاد بنا کر کراچی کے ایک ہوٹل سے انھیں گرفتار کر لیا۔
پیر کو پی ڈی ایم کے دیگر رہنماو¿ں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا تھا کہ آئی جی سندھ کو یرغمال بنا کر رینجرز کے ‘سیکٹر کمانڈر’ کی جانب سے زبردستی مقدمہ درج کروایا گیا
مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس گرفتاری کے لیے احکامات پر آئی جی سندھ کو یرغمال بنا کر رینجرز کے ’سیکٹر کمانڈر‘ کی جانب سے زبردستی دستخط لیے گئے۔
تاہم مریم نواز کے انتہائی وثوق سے کیے گئے اس دعوے پر مراد علی شاہ نے کوئی بات نہیں کی۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ وقاص نامی جس شخص نے درج کروایا ہے، اس کی جب لوکیشن نکالی گئی تو معلوم ہوا کہ 19 اکتوبر کو چار بج کر 45 منٹ سے چار بج کر 52 منٹ تک وہ شخص بقائی میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں موجود تھے۔
واضح رہے کہ بقائی یونیورسٹی بانی پاکستان کے مزار سے خاصے فاصلے پر حیدرآباد کو جانے والی شاہراہ پر موجود ہے۔
انھوں نے مزار پر نعرے بازی کے حوالے سے کہا کہ وہ واقعہ نامناسب تھا۔ ’میں اس کا جواز پیش نہیں کر رہا مگر یہی حرکات پی ٹی آئی کئی مرتبہ کر چکی ہے، میں پی ٹی آئی کی حقیقت سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔‘
مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ منصوبہ ناکام ہونا تھا ’جس میں ایک وفاقی وزیر بھی شامل تھا جس نے ایک الٹی میٹم بھی دیا تھا۔‘
وزیر اعلی نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف نے وقاص نامی شخص سے ایف آئی آر کے لیے درخواست دلوائی جس نے کہا کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ درخواست دینے آیا تو ساتھ تحریک انصاف کے ایم پی اے تھانے میں ان کے ساتھ موجود تھے۔
انھوں نے اس امر کے لیے ‘سازش’ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وقاص کو استعمال کرنے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ کیس جھوٹا ہے۔
اپنی پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلی سندھ نے تین افراد کی تصاویر بھی دکھائیں جن میں مقدمے کا مدعی وقاص اور ان کے دیگر ساتھیوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔
انھوں نے سوال کیا کہ کوئی شخص اپنے حریف کے جلسے میں کیوں جائے گا، سوائے اس کے کہ اسے وہاں کسی سازش کے تحت بھیجا گیا ہو۔
’ایک شخص جو بقائی ہسپتال میں بیٹھا ہے وہ کہتا ہے کہ ساڑھے چار بجے مجھے دھمکی آئی، وہ شخص اشتہاری مجرم ہے۔‘
انھوں نے جارحانہ انداز میں کہا کہ ‘آپ کے سامنے ہے کہ کون قائد اعظم کے مزار کو استعمال کرنا چاہ رہا ہے اور کون اس کا تقدس پامال کرنا چاہتا ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے اراکین نے کوشش کی کہ کچھ کر سکیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
’ایک نجی شخص مقدمہ داخل کرواتا ہے تو اس کے ساتھ پوری پی ٹی آئی کی ٹیم کیوں موجود ہوتی ہے، اس کے ساتھ پی ٹی آئی کے وکلا موجود تھے۔‘
مراد علی شاہ نے کہا کہ چونکہ جلسہ رات گئے ساڑھے 12 بجے تک چلا تو وہ دیر سے گھر آئے اور صبح انھیں معلوم ہوا کہ ’تحریک انصاف نے کیا حرکت کی ہے۔‘
انھوں نے نام لیے بغیر ایک وفاقی وزیر کے حولے سے کہا کہ وہ ’الٹی میٹم بھی دیتے رہے کہ میں دیکھتا ہوں ایف آئی آر کیسے نہیں درج ہوتی۔ ان کو غیر قانونی کام کرنا تھا۔‘
مراد علی شاہ نے کہا کہ انھیں صبح ساڑھے سات بجے کے قریب معلوم ہوا کہ کیپٹن (ر) صفدر گرفتار ہوئے ہیں۔ پھر معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ایف آئی آر ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جس طریقے سے گرفتاری ہوئی ہے انھیں اس پر خدشات ہیں۔
وزیر اعلی مراد علی شاہ نے تحریک انصاف کے کارکنوں اور وفاقی وزرا پر الزام لگایا کہ انھوں نے ’ایک سازش کے تحت‘ حزب اختلاف کے کراچی جلسے میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی اور پولیس پر مقدمہ درج کرنے کے لیے دباو¿ ڈالنے کی بارہا کوششیں کیں۔
تاہم انھوں نے کہا کہ مقدمہ درج کروانے کی متعدد کوششوں پر ہر بار پولیس نے ان کی صحیح طریقہ کار کے حوالے سے رہنمائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جلسے میں لوگوں کی آمد کو دیکھتے ہوئے ’وفاقی حکومت بوکلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ پہلے حکمران جماعت کے ایک ایم پی اے نے پولیس کو درخواست دی تو انھیں پولیس نے سمجھایا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے اور صحیح طریقہ کار بتایا۔‘
مراد علی شاہ نے مزید بتایا: ’پھر ایک اور ایم پی اے آ جاتے ہیں، پھر انھیں سمجھایا جاتا ہے۔ پھر ایک شخص ایم پی اے کے ہمراہ درخواست دیتا ہے۔‘
مراد علی شاہ کے مطابق قانون کے تحت یہ درخواست میجسٹریٹ کو پیش ہوتی ہے اور پولیس اس معاملے پر کارروائی نہیں کر سکتی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس پر دباو¿ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں اور انھیں ڈرایا دھمکایا گیا۔
مراد علی شاہ نے بظاہر پاکستان تحریکِ انصاف کو پیشکش کی کہ اگر وہ بھی سندھ حکومت کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے اپنا مو¿قف رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔
’جو کچھ بھی ہوا 18 تاریخ کو شام ساڑھے چار بجے سے 19 کی شام چھ بجے تک اس پر ہم وزارتی کمیٹی بنائیں گے، اگر یہ لوگ بھی کمیٹی کے سامنے آنا چاہتے ہیں تو آئیں اور مو¿قف دیں۔‘
انھوں نے اس معاملے کی انکوائری کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اگر مجھے بھی تفتیش کے لیے طلب کیا گیا تو میں بھی جاو¿ں گا۔
مراد علی شاہ نے کہا: ’ملک کے لیے ضروری ہے کہ جلد سے جلد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہو اور آئینی طریقے سے ملک میں جمہوریت آئے۔‘