اس موضوع کو لیکر سوچتاہوں کہ کیا عجب فطرت ہے ہماری؟ہم جب بھی تاریخ پڑھتے ہیں تو قدم قدم پر ایسے کردار سامنے آجاتے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر سوچ دنگ رہ جاتاہے۔ اور ماننا پڑتاہے کہ ناکامیاں ہمیشہ اپنے ہی اندر سے پھوٹ کر بیرونی قوتوں کے کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اپنا غدار دشمن کے سر پرسحرا باندھ کر زیادہ خوشی کے چسکے لیتارہتاہے ۔ ہم بدقسمتی سے آدم زاد کے اس بیہودہ حرکت کاجائزہ ایک سے لیکر اکیسویں صدی کے درمیان ہونے والے تمام جنگی مارکوں میں دیکھتے ہیں۔اور ہر جگہ یہی نظر آتاہے جو حال میں ہی ہورہاہوتاہے ۔بحث کو مختصر اََسمیٹ کر ہم اس کہاوت ” آستین کے سانپ خطرناک ہوتے ہیں “ پر اتفاق کرلیتے ہیں۔کہ مجموعی طورپر مذہبی لوگوں ،قوم پرستوں، قبائلی عمائدین ،یا رنگ ونسل پرستانہ سوچ رکھنے والے معاشروںمیں ہمیں نااتفاقی اور ایک دوسرے کے ٹانگیں کھینچنے کے مثالیں زیادہ مل رہی ہوتی ہیں۔سو اینڈ سو۔یہاں میرا مدعا بلوچ ہونے کے ناطے بلوچ قبائلی ڈھانچہ ،بلوچ قومپرستی ،وغیرہ پر محدود ہوگا۔اوراس زاویہ پر مختصراََ اسے کنگھالنے کی کوشش کروںگا۔ مگر یہاں پھر چھلانگ لگانا لازمی ہوگا کہ ایک صدی سے ایکیسویں صدی ایک سمندر معلوم ہورہاہے۔ لہذا میراموضوع بحث وہ بھی سرسری محض 1839سے موجودہ وقت ہی رہے گی۔ فرض کرتے ہیں، ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ 13نومبر 1939 میں جب انگریز یعنی فرنگی نے بلوچستان میری قلات جوکہ دارالخلافہ تھی پر بزور شمشیر قبضہ کرکے خان آف قلات میر محراب خان کو زیر کرکے ساتھیوں سمیت قتل کردیا۔ تو اس کارنامے اورکامیابی کاسحرا انگریز کو اس وقت مل جاتاہے۔ جب خان ہی کے محل کے سازشی ملاحسن وغیرہ بغاوت کرکے انگریز کو وہ خفیہ راستہ دکھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اوریہی ماناجاتاہے اور بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ انگریز محل کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوگئے۔اور خان محراب خان اور انکے جانبازوں کو شہید کردیئے ۔یہاں کامیابی ناکمی میں بدلنے کا دھبہ اپنے ہی آستین کے سانپوں کوجاتاہے ۔المختصر اسکے بعد جو اقتدار کی رسہ کشی رہی بھائی نے بھائی کو قتل کردیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس میں بھی اندرونی بغاوتوں نے بیرونی طاقتوں کو طاقت بخشنے میں توانائی پہنچائی ۔اس بدبختی نااتفاقی کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ27مارچ1948کو کالے انگریزوں(پنجابی) نے قلات میں بلوچستان یعنی ریاست قلات خان کے محل پر حملہ کرکے انھیں گرفتار کرکے ان سے الحاق کے زبردستی دستخط لئے ۔اس دوسرے بڑے سانحہ کے رونما ہونے پر اردگرد یعنی اپنے ہی بھائیوں جسے بلوچی میں کوپہ کہاجاتاہے نظر ڈالتے ہیں تو انکے لومڑی چال ہمیں صاف دکھائی دیتاہے۔ کہ وہ اپنے طورپر ریاست خاران اور لسبیلہ کا الحاق لالچ اور ڈر کے مجموعی شکار ہوکر نہ کرتے تو یہ سانحہ رونما نہیں ہوتا (اور نہ بلوچ آج پنجابی کے ہاتھوں پس رہے ہوتے؟)۔ اور ریاست قلات بغیر دست بازو پنجابی کے رحم وکرم پر نہیں ہو رہتا ۔یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اندورونی طورپر اگر خان بھی پنجابی کے آنے پر ایک پرسنٹ بھی خوش رہا ہوگا تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ ہی کے اندر سے بلوچ ہی نے خاموش غداری کرکے انھیں غلامی کے اس دلدل میں پھینک دینے کا ذمہدار ماناجائے گا۔ (کیوں کہ پاکستان جیسے غیر ذمہدار ریاست کے اشرافیہ میں انسانیت سرے سے وجود نہیں رکھتی) ۔ رہی بات اسلام، مسلمانیت ،مذہب، دھرم ،کی تو وہ بھی کسی مائیکروسکوپ سے ڈھونڈنے پر بھی نہ پاکستان اور نہی اس کے فوج میںمل پارہی ہوگی ۔مگر اس کے باوجود بلوچ انکے رحم وکرم پر ہیں ۔پس یہاں ثابت ہواکہ جب اپنے ہی بے گانہ بن کر دشمن کے ہاں میں ہاں ملائیں یا خاموش رہیں تو بھی دشمن کو وہی فائدہ مل جاتاہے جو انکے ہاں میں ہاںملانے سے مل رہاہوتاہے ۔
یعنی لاتعلق رہ کر آپ انڈائریکٹ دشمن بن جاتے ہیں ۔ جس کا آپ کو احساس تک نہیں ہوتا۔کہہ سکتے ہیں لاشعوری آپ کی لاتعلقی دراصل دشمن کے پلڑے کو بھاری کرنے کا باعث بن جاتاہے ۔ ہم اس لاتعلقی کو کئی منفی نام دے سکتے ہیں۔جیسے بدنیت ،کامیابی دیکھ کر جلنا ،وغیرہ ۔یا فکری حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ میرے نظریہ اور فکر کا مخالف ہے یاابن الوقت ہے ،خوف کا شکار ہے وغیرہ ۔
اگر دوسری جانب آپ کا ہم فکر ہے ،نظریہ ایک ہے جینامرنا ایک ساتھ ہے ۔ مگر اس کے باوجود آپ کو کمک مدد نہیں کر رہاتو یقینا آپ کو بجلی کے جھٹکے لگیں گے ۔اور آپ سوچ رہے ہونگے کہ ایسا کیوں ہو؟ا جس کا یقین نہیں تھا ۔اس کے علاوہ اس کے عدم تعاون کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے دشمن کو آپ پر ثبقت ملے گا۔اور آپ نقصان میں چلے جائیں گے یعنی یہاں آپ سے مراد مکمل تحریک پیچھے چلاجائے گا کیوں کہ آپ کا کام اور مقصد اجتماعیت کے ستون پر رکھاگیاتھا۔یہاں انفرادیت کا نام ونشان نہیں تھا ۔تو ایسے میں آپ کے اجتماعی مفادات ،نظریہ ،فکر اور تحریک کو ہی نقصان پہنچے گا۔ جب یہاں نقصان ملا تو لازمی ہوگا کہ دشمن فائدے میں رہے گا۔
کچھ اس قسم کی بدنیتی یا لاشعوری رویہ حالیہ بلوچ تحریک میں سیاسی ،سماجی ، جنگی اورسوشل میڈیا میں دیکھنے کو ملتاہے ۔یہاں اگر صرف سوشل میڈیا کے موضوع پر بات کریں تو ہمیں فکری نظریاتی ،نہ جانے کیاکیا نام دیں،وہ ساتھی حمایت کرنے بجائے منفی پروپیگنڈہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔کہ فلاں یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں فلاں کو نہ کریں،فلاں فیسبک پیج لائک کریں، فلاں نہ کریں ،فلاں ٹیوٹر کو فالوکریں، فلانے کو انفالو کریں ۔ دوسرے گروہ کے لوگ اپنے آپ کو لاتعلق رکھ یں گے ،یعنی کسی کو سبسکرائب فالو ،لائک کرنے سے معزور رہیں گے،نہیں کسی واٹسپ گروپ،یا ادبی سیاسی ،نیوز چینل میں نذر آئیں گے ۔ میرے خیال میں صرف ،بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ،( آزاد ) جنگی محاذ والے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر ( براس) اور بلوچ سئنگ پرسنز کے بازیابی کیلے جہد کرنے یا متاثرین کو دیکھاجائے مجموعی طورپر انکی تعداد( تمام) لاکھوں میں ہونگے ۔مگر مجال ہے یہ تمام مل کر ،اپنے تحریک کے آواز کو دنیا تک پہنچانے والے سوشل میڈیا میں کسی یوٹیوب چینل ،فیسبک پیج ،ٹیوٹر یا واٹسپ گروپ کو سپورٹ کر رہے ہونگے ؟ یہاں سپورٹ کا مدد مالی جانی نہیں ،صرف سبسکرائب ،لائک ،شیئر ،فالو کرنے سے مراد ہے ۔مگر ان کیلے یہ کام کرنا رائی کا پہاڑ معلوم ہوتاہے ۔اگر رائی کاپہاڑ نہیں ہے تو آپ بلوچ آزادی کے جہد کرنے والے کسی یوٹیوب چینل کو دیکھیں آپ کو تیس ہزار سے زیادہ سبسکرائبر نہیں ملیں گے ؟ کسی بھی لاپتہ یا قتل ہونے والے کیلے ٹرینڈ اگر غلطی سے چلے تو اس میں بھرپور شرکت نہیں کریں گے ،جو انتہائی بڑی بدقسمتی ہے ۔دوسری طرف یہی ہیرو عالمی دنیا اور دوسرے تہذیب یافتہ اقوام پر الزام اور نفرت کرتے نظر آئیں گے کہ جی یہ بلوچ کے ساتھ ہونے والے پنجابی فوج کے ہاتھوں ظلم سے بے خبر ہیں ۔جب آپ کا سوچ محدود ہوگا آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی خبریں ،اپنے زبان بارے معلومات ،اپنی ثقافت ،کلچر رسمورواج ،قتل ،چوری ،اغوا ،بارے خاموش رہیں گے، تو انجام گلستان کیاہوگا؟ ۔ لہذا حقیقی قوم پرستوں کو زبانی جمع خرچ اور ڈیڑھ انچ کے مسجدسے نکل کر عملاََ،ہرمیدان سمیت سوشل میڈیا میں اپنا رول ،اداکرنا ہوگا۔تاکہ ہماری آواز دنیاکے تہذیب یافتہ اقوام تک پہنچے۔ ورنہ ہم جس طرح پنجابی کے غلام ہیں آئندہ پاکستان چین کے ہاتھوں بیچے جائیں گے ( جس کا آغاز جزائر کی شکل میں ہوچکاہے) تو بلوچ کیلئے مذیدمشکلات پیداہونگے ۔اب بھی چین انڈائریکٹ بلوچ کے خلاف فوجی آپریشن میں حصہ لے رہاہے ،مگر آئندہ ببانگ دھل کاروائی کریں گے ۔ اور ہم صرف تکالیف برداشت کرکے لاشیں اٹھااٹھاکر ماتم کرتے رہیں گے ۔ہمارے لئے وقت ہے نکلیں اپنے اپنے بدنیتی ، تنگ نظری،عدم برداشت کے رویہ سے۔ جوبھی بلوچ کسی بھی طرح کا ایکٹیوٹی کررہاہے جس سے تحریک اور بلوچ شناخت کو تحفظ ملتاہے اس کی حمایت خندہ پیشانی سے کریں تاکہ آپ کے نسل پہچان ،زمین زبان ،ثقافت رسمورواج تہذیب محفوظ رہیں۔
٭٭٭