ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں ہیرا پھیری کے لیے فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال جمہوری عمل کے لیےخطرہ ہے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس میں ماہرین نے کہا کہ انتخابات جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی رکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد، جھوٹی معلومات اور غلط خبریں اس عمل کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
کوفی عنان فاو¿نڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال امریکا کے ساتھ ساتھ تقریبا 80 ممالک میں انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر غلط خبروں کے مواد کے پھیلاو¿ سے انتخابات کے دوران ووٹروں کو باقاعدہ گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام ممالک کو انتخابات میں غیر ملکی دخل اندازی اور جعلی خبروں کے پھیلاو¿ سے محفوظ رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔
کوفی عنان فاو¿نڈیشن کے ’ڈجیٹل دور میں الیکشن اور جمہوریت کے کمیشن‘ کی طرف سے جاری کردہ اس تازہ رپورٹ میں اس مسئلے کا حل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماہرین نے اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک پر توجہ مرکوز رکھی، کیونکہ وہاں انتخابی نتائج عموماً تنازعات کا شکار رہتے ہیں، جس سے پرتشدد واقعات اور بدامنی پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔ یہ رپورٹ اس سال میونخ سکیورٹی کانفرنس (ایم ایس سی) میں پیش کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں انتخابات میں ‘مینوپلیشن’ یعنی ووٹرز کو غلط معلومات کے ذریعے گمراہ کرنے کی اکثر نشاندہی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں انتخابات کے لیے پہلے ہی وسائل کی کمی رہتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مستقبل میں ایسے ممالک کے انتخابات میں منظم انداز میں نفرت آمیز مواد، غلط معلومات، بیرونی مداخلت اور داخلی ہیرا پھیری جیسے طریقے مرکزی کردار ادا کریں گے۔
ایسٹونیا کے سابق صدر ٹوماس ہینڈرک الیوس اس رپورٹ کے پیش کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے ملک کا شمار ڈجٹلائٹزڈ ترین ممالک میں ہوتا ہے اور وہ اس مسئلے کا سامنا کر چکے ہیں۔ سن 2007 میں ہیکرز کے ایک گروپ نے سرکاری اداروں، پارلیمنٹ، صدر، قومی وزرا، بینک اور میڈیا اداروں کو نشانہ بنا کر مفلوج کر دیا تھا۔ بعد ازاں سن 2009 میں روسی حکومت سے قریبی تعلقات رکھنے والی نوجوانوں کی تنظیم ’ناشی‘ کے ایک رکن نے ان سائبر حملوں کی ذمہ داری لی تھی۔
میڈیا سے گفتگو میں الیوس نے کہا کہ کیمبرج اینالیٹیکا نے نہ صرف سن 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم اور امریکی صدر ٹرمپ کے الیکشن میں کردار ادا کیا بلکہ افریقی ملک کینیا میں سن 2013 اور سن 2017 کے انتخابات میں بھی گڑ بڑ کی گئی تھی۔ الیوس کا کہنا ہے کہ جب کمپنی نے دیکھا کہ کینیا میں ان کے منصوبہ کامیاب ہو چکا ہے تو انہوں نے ٹرانس اٹلانٹک تناظر میں اسی طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کردیے۔
کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل اس بارے میں تھا کہ فیس بک استعمال کرنے والے قریب 87 ملین افراد کا ڈیٹا کیمبرج اینالیٹیکا کے پاس پہنچ گیا تھا، اور اسے بلا اجازت 2016ءکے امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے ریپبلکن امیدوار (اب امریکی صدر) ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی مہم کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانبدارانہ رکھنےکے لیے کوفی عنان فاو¿نڈیشن کی رپورٹ میں 13 تجاویز پیش کی گئیں۔ ان میں ایک تجویز یہ ہے کہ انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں سے درخواست کی جائے کہ وہ جعلی خبریں اور مواد پھیلانے والی مہم کے طریقوں سے گریز کریں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون سازوں کو واضح طور پر خاکہ پیش کرنا ہوگا کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہم کس حد تک قابل قبول ہے۔
اس رپورٹ میں قانون ساز اداروں سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس بارے میں جامع اعداد و شمار پیش کرنے پر پابند کریں کہ کس سیاسی جماعت نے سیاسی اشتہارات کے لیے رقم ادا کی۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ سوشل میڈیا کے دیو ہیکل ادارے تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو ڈیٹا فراہم کر کے شفافیت کو بہتر بنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ الگورتھم یا پھر خودساختہ طور پر دکھائے گئے ہر قسم کے سیاسی اشتہارات کو بنیادی طور پر مسترد کر سکیں۔
اس حوالے سے فیس بک کے سابق چیف سکیورٹی آفیسر الیکس اشٹاموس جو کہ اس رپورٹ کے مصنفین میں شامل ہیں، ایک مثبت مثال بھی پیش کی۔ اشٹاموس نے بتایا کہ سن 2017 میں جرمنی کے پارلیمانی انتخابات کے دوران فیس بک کی جانب سے جرمن حکام کے ساتھ مل کر ایسے ہزاروں فیک اکاو¿نٹس بند کیے گئے جو باقاعدہ طور پر جھوٹی معلومات کے پھیلاو¿ میں ملوث تھے۔