فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ طنزیہ میگزین چارلی ایبڈو کے پرانے دفتر کے قریب ایک چاقو حملے کے بعد سات افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔ اس واقعے میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں اور فرانس کے وزیر داخلہ نے اسے دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک 18 سالہ شخص کو مرکزی ملزم قرار دیا جا رہا ہے۔ انھیں جائے وقوعہ کے قریب گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم کے علاوہ مزید چھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔
دو زخمیوں میں ایک مرد اور ایک خاتون شامل ہیں جو ایک ٹی وی نیوز پروڈکشن کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ایک بڑے چاقو جیسے ہتھیار کے ذریعے شدید زخمی کیا گیا۔
فرانس کے وزیر اعظم نے جائے وقوعہ پر صحافیوں کو بتایا کہ زخمی ہونے والے افراد کی زندگیاں خطرے سے باہر ہیں۔
فرانس میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے دو جہادیوں کی سہولت کاری کے الزام میں 14 افراد پر مقدمہ چل رہا ہے۔ اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سے اب چارلی ایبڈو کے دفتر کو ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
فرانس ٹو نامی چینل پر انٹرویو میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے ملک اور اس کے صحافیوں کے خلاف ایک خونی حملہ ہے۔
’یہ وہ سڑک ہے جہاں چارلی ایبڈو ہوا کرتا تھا۔ اسلامی دہشت گرد ایسے ہی کام کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے رواں ہفتے ایک مقدس یہودی دن کے موقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کی تمام عبادت گاہوں پر سکیورٹی سخت کردیں۔
مرکزی ملزم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان سے تین سال قبل ’ایک تنہا لڑکے کے طور پر‘ فرانس آئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں کہ اس ملزم کو شدت پسندی کی طرف کیسے لے جایا گیا لیکن انھیں ماضی میں ایک مرتبہ پیچ کس رکھنے پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔
زخمی ہونے والے افراد کے ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ دفتر کے باہر سگریٹ نوشی کر رہے تھے کہ جب ان پر حملہ کیا گیا۔
اس نیوز چینل کا دفتر اسی سڑک پر ہے جہاں چارلی ایبڈو کا پرانا دفتر ہوا کرتا تھا۔ اسی علاقے میں 2015 کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تصاویر بھی موجود ہیں۔
ان کے ایک ساتھی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ: ’میں کھڑکی میں دیکھ رہا تھا کہ میرے ایک ساتھی کا خون نکل رہا ہے اور ایک ایسا شخص اس کا پیچھا کر رہا ہے جس کے ہاتھ میں چاقو ہے۔‘
نیوز چینل کے بانی پال موریرا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ان دونوں کو بری طرح زخمی کیا گیا۔‘
پولیس نے جلد اس علاقے کو سیل کردیا اور قریب سے ایک چاقو برآمد کیا۔
علاقے میں میٹرو سٹیشن اور پانچ سکول فوری بند کردیے گئے۔ ان سکولوں کو کچھ گھنٹوں بعد کھول دیا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے کچھ ہی دیر بعد مرکزی ملزم کو حراست میں لے لیا تھا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ دیر بعد الجیریا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
پیرس کے شمال مشرقی مضافات سے پاکستان نڑاد پانچ مزید افراد کو حراست میں لیا تھا۔ فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں مرکزی ملزم کے گھر تلاشی کے دوران عمل میں آئیں۔
چارلی ایبڈو نے ایک ٹویٹ میں اپنے سابقہ ہمسائے دفتر کے لیے ہمدردی ظاہر کی ہے۔
چارلی ایبڈو نے پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع کارٹون شائع کیا جس سے ایک نئے مقدمے کا آغاز ہوا۔ ان کارٹونز کی اشاعت کے بعد کئی مسلم ممالک میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جبکہ القاعدہ نے ایک مرتبہ پھر اس میگزین کو دھمکی جاری کی۔
میگزین میں ہیومن ریسورس کی سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں جس کے بعد انھوں نے گھر تبدیل کیا۔
اس مقدمے میں مدعا علیہان پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک ایسے دہشت گرد کی مدد کی جس نے ایک خاتون پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا اور اس کے بعد ایک یہودی شخص کی دکان پر حملہ کر کے چار مزید افراد کو ہلاک کیا تھا۔
تین کے اندر 17 افراد قتل کیے گئے تھے۔ جبکہ تین حملہ آوروں کو پولیس نے ہلاک کیا تھا۔ ان ہلاکتوں کے بعد فرانس میں دہشت گرد حملوں کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی جس میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
7 جنوری 2015 کو دو فرانسیسی مسلمانوں نے پیرس میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر فائرنگ کی تھی۔ اس حملے میں میگزین کی مدیر سمیت چار معروف کارٹونسٹ ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد میں ان حملہ آوروں کو سکیورٹی اہلکاروں نے ایک وسیع تلاش کے بعد ہلاک کر دیا تھا۔ انھوں نے مجموعی طور پر آٹھ صحافیوں، دو پولیس اہلکاروں، ایک ملازم اور ایک مہمان کو ہلاک کیا تھا۔
کچھ ہی روز بعد مشرقی پیرس میں ایسے ہی ایک اور حملے میں ایک مسلح دہشت گرد نے ایک یہودی شخص کی سپر مارکیٹ پر حملہ کرتے ہوئے تین گاہکوں اور ایک ورکر کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس سے قبل اس حملہ آور نے شہر میں ایک خاتون پولیس اہلکار گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔
سکیورٹی اہلکاروں نے آخر میں اس سپر مارکیٹ میں داخل ہوکر حملہ آور کو ہلاک کر دیا تھا اور باقی کے یرغمال بنائے گئے افراد کو آزاد کر دیا تھا۔