پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں قابض ریاست کے جراٸم کا تسلسل – تحریر: جنید کمال

جنید کمال
جنید کمال
9 Min Read

تنویر احمد اور سفیر کشمیری کی پاکستانی پرچم اتارنے پر گرفتاری کوٸی پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی آخری ہے بلکہ قابض ریاست کے یہ حربے سات دھاہیوں سے جاری ہیں اور جب تک قابض کے قبضہ گیریت کو دواٸم بخشنے کے عزاٸم باقی ہیں، آزادی پسندوں کی جدوجہد بھی جاری رہے گی اور قابض کا گرفتار کرنے،تشدد کرنے قتل و اغوا کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا،قبضہ گیری کا بد ترین معروف اصول یہ ہے کہ جب زیرِ قبضہ علاقوں کے لوگ خاموشی سے غلامی کو سہتے رہیں تو قبضہ گیر خاموش حکمت عملی کے تحت وساٸل کو لوٹتا رہتا ہے اس لوٹ کھسوٹ اور قبضہ گیری کے خلاف جب آواز بلند ہونا شروع ہو تو قابض اس آواز کو بازور طاقت دباتا ہے،پاکستان جیسی سفاک اور قاتل ریاست نہ صرف ریاست جموں کشمیر کے اپنے زیرِ قبضہ حصے سے وساٸل کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھے ہوۓ ہے بلکہ غلامی اور آزادی میں فرق سمجھنے اور یہ فرق عوام کو سمجھانے والوں کی آواز کو مختلف حربوں سے دبا رہی ہے،تنویر احمد اور سفیر کشمیری کی گرفتاری اس ریاستی جبر وتشدد اور دہشتگردی کا تسلسل ہے
دو ہزار کے بعد پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان میں آزادی اور نجات کی آواز بلند کرنے والے اور پاکستان میں زیرِ تعلیم نوجوان طلباء کے سفاکانہ قتل کے علاوہ سیاسی اسیران کو 70 ۔70 سال قید اور پرامن احتجاجی مظاہرین پر وحشیانہ ریاستی تشدد جیسے جراٸم کی مرتکب قابض ریاست کے عزاٸم کو عوام جاننا شروع ہو چکے ہیں کہ جب بھی آزادی اور نجات کی جدوجہد منظم ہو گی تب تب قابض ریاست کے جبر و تشدد میں شدت آۓ گی۔


آزادی پسند رہنما نیشنل لبریشن کانفرنس کے صدر عارف شاھد کو راولپنڈی کے مقام پر قابض فوج کے اہلکاروں نے سلینسر اسلحہ استعمال کرتے ہوۓ گردن میں دو گولیاں اتار کر شہید کیا،سرفراز احمد کو کراچی کلفٹن چوک میں رینجرز کے اہلکاروں نے سرِ عام دن دھاڑۓ گولیوں کا نشانہ بنایا جس کی ویڈیو واٸرل ہونے کی وجہ سے ان اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا لیکن 14 اگست کو صدر پاکستان نے ان اہلکاروں کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا حالانکہ کیس عدالت میں موجود تھا معوذ علی کی لاش لاھور سے ملی عاشق حسین کو حیدر آباد میں قتل کر دیا گیا،حصول تعلیم کے لیے اسلام آباد جانے والے درجنوں طلباء کی یا تو لاشیں ملی یا انھیں سر عام قتل کر دیا گیا،گزشتہ سال حمزہ امتیاز کو ایک جنرل کے بیٹے نے اجرتی قاتلوں سے قتل کروایا یہ سب واقعات قبضہ گیری کے عزاٸم کو دواٸم بخشنے کی کڑی ہے کہ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے طلباء ریاست کی درخشاں تاریخ سے واقفیت حاصل کر کے عوام کو اس تاریخ کے تناظر میں منظم کر کہ نا جاٸز قبضہ کو کاری ضرب لگاٸیں گے


قابض ریاست نے سیز فاٸر لاٸن کے ملحقہ علاقوں نیلم اور کھوٸی رٹہ میں کچھ نوجوانوں کو جبری طور پر اغوا کیا لیکن عوام کے احتجاج کی وجہ سے انھیں نا معلوم مقام پر چھوڑ گٸے،ان واقعات سے سفاک ریاست کے وہ عزاٸم کھل کر سامنے آتے ہیں کہ اگر قومی آزادی کی تحریک منظم ہونا شروع ہو تو جبری گمشدگیوں کا سلسہ مقبوضہ بلوچستان کی طرح یہاں بھی شروع ہو جاۓ گا،سیز فاٸر لاٸن کے قریب علاقوں میں خواتین کو جنسی حوس کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے لیکن میڈیا کی اپروچ نہ ہونے کی وجہ سے اور وہاں کے لوگوں کو فوجی دباو میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات منظرِ عام پر نہیں آتے،گزشتہ سال ہولاڑ کوٹلی کے مقام پر ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ فوجیوں نے ریپ کیا بہادر نوجوان لڑکی نے اس پر آواز بلند کی عوام کے بھرپور احتجاج کے نتیجے میں ہولاڑ سے فوجی چوکی کو ختم کیا گیا تھا،
علاوہ ازیں گزشتہ 5 سال سے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے غلامی کے خلاف اور بنیادی عوامی جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے عوام اور سیاسی تنظیموں کے خلاف جبر و تشدد میں خاصی تیزی آٸی ہے جو اس کی غمازی کرتی ہے کہ قابض کے قبضہ کے خلاف جوں جوں تحریک منظم و مضبوط ہو گی قابض ریاست کے جبر و تشدد میں شدت آۓ گی۔
2018.19

میں طلباء حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے طلباء پر مظفرآباد ۔راولاکوٹ۔میرپور میں ریاستی تشدد کا ہولناک مظاہرہ کیا گیا۔طلباء پر لاٹھی چارج آنسو گیس اور شیلنگ کی گٸی جس سے درجنوں طلباء زخمی ہوۓ طلباء کو پابند سلاسل کر کے ان پر بیمانہ تشدد کیا گیا۔
جے کے ایل ایف کے پر امن مارچ پر راولاکوٹ میں لاٹھی چارج کے علاوہ گولیاں برساٸی گٸی جس کے نتیجے میں درجنوں پر امن مظاہرین شدید زخمی ہوۓ اور جے کے ایل ایف کے دیرینہ کارکن نعیم بٹ شہید ہوۓ


مزید براں اکتوبر 2019 پیپلز نیشنل الاٸنس کی کال پر ہزاروں لوگ مظفرآباد میں جمع ہوۓ یونیورسٹی سے اسمبلی کی طرف پرامن مارچ کو روکتے ہوۓ لاٹھی چارج کیا گیا پورا دن مظاہرین اور سیکورٹی اداروں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔مظاہرین پر بے دردی سے تشدد کیا گیا گولیاں اور شل برساۓ گٸے جس سے درجنوں لوگ شدید زخمی ہوۓ اور ایک شہری شہید ہوا۔تین درجن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا،پولیس کی وردیوں میں ملبوس 80 فیصد قابض فوج کے سپاہی کمانڈو جبروتشدد کے لیے ڈیوٹی پر موجود پاۓ گٸے،رات کی تاریکی میں جب پی این اۓ کی قیادت پریس کانفرنس کر رہی تھی تو فوجی کمانڈوز کے قاتلانہ حملہ کیا بہادر صحافی ڈٹ گٸے اور قیادت کی ڈھال بن گٸے ورنہ اس دن وہاں موجود ساری قیادت کو قتل کر دیا جاتا،
پاکستانی قابض فوج نے پاکستان کے مقبوضہ دس اضلاع کے ہر شہر کو چاروں اطراف سے محاصرۓ میں لیکر رکھ ہے ہر شہر کے شروع اور آخر کی گزر گاہ پر فوجی برگیڈ اور چھانیاں ہیں جو شدید قبضے کی غمازی کرتی ہیں جن کا مقصد کسی بھی شہر میں قابض کے خلاف اٹھنے والی آواز کا دبانا ہے،
علاوہ ازیں گلگت بلتستان میں آج بھی ایجنسی راج ہے حقوق مانگنے والوں پر جبر و تشدد معمول ہے افتخار کربلاٸی بابا جان اور ان کے درجن بھر ساتھیوں کو عوامی حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں گرفتار کر کہ اب پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قاٸم کر کہ انھیں ستر ستر سال کی سزاٸیں سناٸی گٸی ہیں۔ہسپتال میں علاج تک رساٸی نہیں دی جاتی،
دیگر آزادی پسند راٸنماوں اور کارکنوں پر شیڈیول فورتھ جیسے کالے قوانین کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عاٸد ہے اور وہ ڈی سی کی اجازت کے بغیر اپنے ضلع سے باہر نہیں جا سکتے۔
پاکستانی سفاک ریاست انسانوں کے قتل عام،جبری گمشدگیوں،مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے جراٸم میں کوٸی سانی نہیں رکھتی،لیکن ابھی ریاست کے اندر اس طرح کی مزحمتی تحریک موجود نہیں جو آواز اٹھتی ہے اسے آسانی سے دبا دیا جاتا ہے،جوں جوں تحریک منظم ہو گی قابض کی قبضہ گیری کو چوٹ پہنچے گی تو قابض جبر و تشدد کی شدت میں اضافہ کرۓ گا اور یہ قابض اتنا غلیظ سفاک بے درد اور بے ہودہ ہے کہ کسی عالمی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا،ماضی میں بنگلہ دیش اور حال میں بلوچستان وزیرستان اس کی واضح مثالیں ہمارۓ سامنے موجود ہیں،جن سے سیکھنے کی ضرورت ہے ریاست جموں کشمیر کے عوام کو بلوچ تحریک سے سیکھتے ہوۓ منظم ہونا ہو گا،کیونکہ عارف شاھد کے قتل سے لیکر صحافی تنویر تک قابض ریاست کی ریاستی دہشت گردی کا ایک تسلسل ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جاۓ گا جس کے خلاف منظم عوام ہی بند باندھیں گے،

Share This Article
Leave a Comment