چین کا کہنا ہے کہ انڈین فوجیوں نے غیر قانونی طور پر دونوں ممالک کے درمیان متنازع سرحد کو عبور کر کے گشت کرتے ہوئے چینی فوجیوں پر ‘اشتعال انگیز فائرنگ’ کی ہے۔
چینی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چینی فوجیوں کو جوابی اقدامات کرنا پڑے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ اقدامات کیا تھے۔
دوسری جانب انڈین حکام نے لائن آف ایکچﺅل کنٹرول (ایل اے سی) پر چینی فوج کی فائرنگ کی تصدیق کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ چین کھلے عام معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ان کے فوجی سرحد پر جارحانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
انڈیا کی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کو چینی فوج کے اہلکار ایل اے سی پر انڈیا کی حدود میں واقع ایک علاقے کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ’جب ہمارے فوجیوں نے ان کا پیچھا کیا تو انھوں نے ہوائی فائرنگ کر کے ہمارے فوجیوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔‘
دلی کا کہنا تھا کہ اس اشتعال انگیز حرکت کے باوجود انڈین فوجیوں نے پیشہ وارانہ رویے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
یہ 45 سال میں پہلا موقعہ ہوگا کہ دونوں ممالک کی سرحد پر فائرنگ ہوئی ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے میں ہتھیار نہ استعمال کرنے کا معاہدہ ہے۔ تاہم گذشتہ چند ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز چینی افواج کی جانب سے پچھلے ہفتے ایک سرحدی ریاست سے مبینہ طور پر انڈیا کے پانچ شہریوں کو اغوا کرنے کی خبروں پر نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی مزید بڑھنے لگی تھی۔
یہ الزام سب سے پہلے انڈین ریاست اروناچل پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن نے ٹوئٹر پر لگایا تھا۔ اس کے بعد انڈین کابینہ کے ایک وزیر نے کہا کہ چینی فوج کو ‘ہاٹ لائن پیغام’ بھیجا جا چکا ہے۔
ریاستی قانون ساز اسمبلی کے رکن تاپڑ گاو¿ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ مبینہ اغوا 3 ستمبر کو سرحد کے پاس ہوا۔ انہوں نے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
جب ایک صحافی نے کابینہ کے وزیر کرن ریجیجو سے ٹوئٹر پر آنے والی خبروں کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے چینی ہم منصب کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
انڈیا نے اگست میں دو بار چین پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ سرحد پر اشتعال انگیز فوجی کارروائیوں سے کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ بیجنگ نے اِن دونوں الزامات کی تردید کی ہے۔
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ 5 ستمبر کو اپنے چینی ہم منصب سے ماسکو میں ملے تھے مگر جہاں اس ملاقات سے حالات بہتر ہونے کی امید کی جا رہی تھی وہاں اس سے دونوں میں تلخی بڑھتی نظر آئی ہے۔
چین کا کہنا تھا کہ سرحدی کشیدگی مکمل طور پر انڈیا کی غلطی ہے اور وہ اپنے علاقہ کا ایک انچ بھی نہیں جانے دے گا۔
انڈیا نے الزام لگایا کہ چینی ‘بڑی تعداد میں فوجی جمع کر رہے ہیں، جارحانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور یکطرفہ طور پر موجودہ صورتحال بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
گو کہ تشدد کے کوئی نئے واقعات سامنے نہیں آئے مگر معمولی جھڑپوں کی خبریں آتی رہی ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق جون سے سرحد پر صورتحال تغیر پذیر ہے۔
جون میں دونوں ممالک کے فوجیوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں 20 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔ چینی فوجیوں کے ہلاک ہونے کی بھی غیر مصدقہ خبریں سامنے آئیں۔
دونوں ممالک ایک دوسرے پر ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں لداخ کے علاقے میں سرحد پار کر کے لڑائی شروع کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں ایک ایسے دشوار گزار علاقے کی سرحد پر جس کی حد بندی مناسب طریقے سے نہیں ہوئی۔
فوجی اور سفارتی سطح پر مذاکرات کے کئی ادوار کے باوجود جوہری ہتھیار رکھنے والے دونوں ہمسائے سرحد کے بارے میں اپنے اختلافات حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چینی افواج کی جانب سے پچھلے ہفتے ایک سرحدی ریاست سے انڈیا کے 5 فوجیوں کو اغوا کرنے کی خبروں پر دلی اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس کے مطابق فوجیوں کے درمیان جھڑپیں پہاڑی علاقے میں چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر ڈھلوان کے مقام پر ہوئیں جن میں کچھ انڈین فوجی نیچے بہنے والے دریائے گلوان کے یخ بستہ پانی میں جا گرے۔
کم از کم 76 انڈین فوجیوں کے زخمی ہونے جبکہ 20 کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ چین کی جانب سے جانی نقصان کے بارے میں کوئی معلومات جاری نہیں کی گئیں۔
یہ جھڑپیں ہتھیاروں کے بغیر ہوئیں جس کی وجہ 1996 کا ایک معاہدہ ہے جس کے مطابق اس علاقے میں بندوقوں اور دھماکہ غیز مواد پر پابندی ہے۔
لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) دونوں ممالک کے درمیان متنازع سرحد ہے جس کی حد بندی مناسب طریقے سے نہیں ہوئی۔ دریاو¿ں، جھیلوں اور برف سے ڈھکی پہاڑیوں کی وجہ سے لائین بدلتی رہتی ہے۔
انڈیا چین کے ساتھ لگنے واالی سرحد پر سڑکیں بنانے کے کام میں تیزی لایا ہے۔
دنیا کی دو بڑی افواج رکھنے والے ممالک میں دونوں اطراف سے فوجی وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے برسرپیکار ہوتے ہیں۔ انڈیا نے چین پر الزام لگایا ہے کہ ا±س نے ہزاروں فوجی لداخ کی وادی گلوان بھیجے ہیں اور 38 ہزار سکوئیر کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں مذاکرات کے کئی ادوار سرحد کے جھگڑے کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان اب تک صرف ایک جنگ ہوئی ہے جو 1962 میں لڑی گئی اور اس میں انڈیا کو شکست کا سامنا ہوا۔
حالیہ کشیدگی کے پیچھے بہت سی وجوحات ہیں مگر سٹریٹیجک مقاصد اور برتری اس کی بنیادی وجہ ہے اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق لداخ سے متصل سرحد کے دور دراز اور دشوار گزار علاقے میں انڈیا کی جانب سے بنائی گئی نئی سڑک دفاعی نکتہ نظر سے اس کمزور علاقے میں تصادم کی صورت میں دلی کے لیے وہاں افرادی قوت اور ساز و سامان بھجوانے کے لیے مددگار ہوگی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے کی کوششوں میں تیزی نے بیجنگ کو طیش دلایا ہے۔