بھارتی حکومت نے لداخ کے معاملے پر چین سے کشیدگی میں اضافے کے باعث مزید 118 ایپلی کیشنز پر پابندی لگادی جن میں بھارت بھر میں مشہور گیم پب جی بھی شامل ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے مذکورہ چینی ایپلی کیشنز پر پابندی سے متعلق کہا کہ یہ اقدام بھارت کی خودمختاری اور سالمیت، دفاع و سلامتی کے مفاد میں اٹھایا گیا۔ ٹیسنٹ ہولڈنگز لمیٹڈ کا ویڈیو گیم پب جی دنیا بھر کے ٹاپ 5 اسمارٹ فون گیمز میں شامل ہے اور اب تک اسے 73 کروڑ 40 لاکھ سے زائد مرتبہ ڈاو¿ن لوڈ کیا جاچکا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بھارت میں پب جی کے 5 کروڑ کے قریب فعال پلیئرز ہیں تاہم وہاں اب اس ایپ پر پابندی لگادی گئی ہے۔
بھارت کی وزارت الیکٹرونکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق اس موبائل گیم پر انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 69 اے کے تحت دیگر ایپس کے ساتھ پابندی عائد کی گئی۔
پابندی کی وجوہات کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ ایپس ایسی سرگرمیوں ملوث ہیں جو بھارت کی خود مختاری اور سالمیت، دفاع، سیکیورٹی سے متعصبانہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ بھارتی سائبر اسپیس کا تحفظ، سالمیت اورخودمختاری کو یقینی بنانے کے اقدام کے تحت کیا گیا اور اس اقدام سے کروڑوں بھارتی موبائل اور انٹرنیٹ صارفین کے مفادات کا تحفظ ہوگا۔
اپنے حالیہ اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے وزارت الیکٹرونکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا کہ انہیں اینڈرائیڈ اور آئی او ایس پلیٹ فارمز پر صارفین کا ڈیٹا چرانے اور بھارت سے باہر سرورز پر منتقل کرنے کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارتی وزارت داخلہ کے سائبر کرائم نے بھی ان ‘ نقصان دہ ایپس’ کو بلاک کرنے کی تجاویز دی تھیں۔
آج (2 ستمبر کو) بھارت میں بلاک کی گئی دیگر ایپس میں گیمز، آن لائن پیمنٹ سروسز، ڈیٹنگ سائٹس اور سیلفیز ایڈٹ کرنے والے سافٹ ویئر بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ جون میں بھارت نے چین سے تعلق رکھنے والی 59 ایپس بشمول ٹک ٹاک، یو سی براو¿زر، وی چیٹ اور بیگو لائیو پر پابندی لگائی تھی۔
بھارت نے چین کی ایپلی کیشنز کو ملکی خودمختاری، سالمیت، دفاع اور امن و امان کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس پابندی کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں جولائی میں بھارت نے مزید 47 ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی تھی جن کے بارے میں بتایا جارہا تھا کہ یہ گزشتہ بند کی جانے والی ایپلی کیشنز کی کلون ایپلی کیشنز تھی۔
خیا ل رہے کہ 2015 سے 2019 کے دوران چینی کمپنیوں بشمول علی بابا اور دیگر نے بھارتی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ساڑھے 5 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے مابین 15 جون کو ہونے والے تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکا کی خلائی ٹیکنالوجی کمپنی میکسار ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ وادی گلوان کے ساتھ چینی تنصیبات نظر آرہی ہیں۔
آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مصنوعی سیارہ ڈیٹا کے ماہر نیتھن روسر نے کہا تھا کہ اس تعمیر سے پتا چلتا ہے کہ کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ وادی گلوان اور دریائے شیوک کے سنگم پر شروع ہوتی ہے اور دونوں فریقین جس لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو باضابطہ تسلیم کرتے ہیں، وادی میں ان دریاو¿ں کے سنگم کے مشرق میں واقع ہے۔
چین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور یہ 45 سال کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سب سے خونریز جھڑپ ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات انتہائی کم ہیں البتہ کشیدگی میں کمی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
دوسری جانب چین دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ بھارت میں واقع ہے جس کے جواب میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کا 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ چین کی حدود میں اکسائی چن کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔