امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کی دوسری مدت کے لیے ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی قبول کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جمعرات کو ری پبلکن کنونشن کے چوتھے اور آخری روز وائٹ ہاو¿س سے اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے نومبر کے صدارتی انتخابات کو امریکی تاریخ کا سب سے اہم الیکشن قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نومبر کا الیکشن یہ فیصلہ کرے گا کہ ہم امریکی طرزِ حیات چاہتے ہیں یا کسی انتہا پسند تحریک کے ہاتھوں سب کچھ تباہ ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا خطاب سننے کے لیے لگ بھگ ایک ہزار ری پبلکن رہنما اور اراکینِ کانگریس وائٹ ہاو¿س میں موجود تھے۔ کرونا وبا کے باوجود کئی رہنما ایک دوسرے کے قریب بیٹھے تھے جب کہ کئی ایک نے تو صحت حکام کے اعلان کردہ حفاظتی قوائد کو نظرانداز کرتے ہوئے ماسک بھی نہیں پہنے تھے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے سیاسی مخالفین انتہائی بائیں بازو کے نظریات رکھتے ہیں۔ وہ امریکہ میں افراتفری پھیلا کر ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حریف صدارتی امیدوار جو بائیڈن کا نام لیے بغیر کہا کہ "سابق نائب صدر امریکیوں کے تحفظ کے ضامن نہیں بلکہ ا±ن کی وجہ سے کئی امریکیوں کی ملازمتیں ختم ہوئیں۔ اگر ا±نہیں موقع مل گیا تو وہ عظیم تر امریکہ کے تصور کو تباہ کر دیں گے۔”
صدر نے ٹرمپ نے کہا کہ "جو بائیڈن 47 سال تک مزدوروں سے چندہ لیتے رہے اور انہیں یہ دلاسہ دیتے رہے کہ وہ ان کے مسائل سمجھتے ہیں۔ لیکن جب وہ واشنگٹن آئے تو ا±نہوں نے امریکیوں کی ملازمتیں ختم کر کے ا±نہیں چین اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو دینے کے حق میں ووٹ دیا۔”
صدر ٹرمپ نے اپنے 70 منٹ کے خطاب میں چین کے حوالے سے اپنی سخت پالیسی کا دفاع کیا۔
ا±نہوں نے کہا کہ چین نے امریکی معیشت کو نقصان پہنچایا جب کہ اس نے کرونا وائرس کو بھی اپنی سرحدوں سے باہر جانے کا موقع دیا۔
ا±ن کے بقول، "میرا ایجنڈا ‘میڈ ان امریکہ’ جب کہ بائیڈن کا نظریہ ‘میڈ ان چائنا ہے۔”
صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر کرونا وبا سے بچاو¿ کی ویکسین رواں سال کے اختتام یا اس سے بھی قبل تیار ہونے کا دعویٰ کیا۔
تقریر کے اختتام پر واشنگٹن یادگار اور نیشنل مال کے اطراف آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔
کرونا وبا کے باعث ڈیموکریٹس کی طرح ری پبلکن پارٹی کے چار روزہ کنونشن کا زیادہ تر حصہ بھی ورچوئل یعنی آن لائن منعقد کیا گیا۔
صدر ٹرمپ کی تقریر سے قبل جو بائیڈن کی انتخابی مہم کی جانب سے صدر پر بھی سیاسی حملے کیے گئے۔
ایک بیان میں بائیڈن کی مہم نے کہا کہ چین کے ساتھ معاملات میں صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کے سب سے کمزور صدر ثابت ہوئے ہیں۔ وہ امریکی مفادات کے تحفظ میں بار بار ناکام ہو کر چین کے سامنے گھٹنے ٹیکتے رہے ہیں۔
ڈیمو کریٹس کے بیان میں کہا گیا کہ جب کرونا وبا سر اٹھا رہی تھی تو چین کے ساتھ تجارتی معاملات کی وجہ سے امریکی کسان، کاروباری طبقے اور صارفین نقصان اٹھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ صدر نے دوبارہ منتخب ہونے کے لیے چینی صدر سے مدد بھی طلب کی۔
جمعرات کو اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاو¿س کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ صدر نے خالصتاً سیاسی تقریب کو وائٹ ہاو¿س کے سبزہ زار میں منعقد کر کے قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔
ریئل کلیئر پالیٹکلس ویب سائٹ کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں میں جو بائیڈن کو صدر ٹرمپ پر سات پوائنٹس کی برتری حاصل ہے جب کہ کلیدی ریاستں نومبر کے الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی جہاں دونوں امیدواروں کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
گزشتہ چار عشروں کے دوران صرف دو بار ایسا ہوا ہے کہ اپنے عہدے پر موجود صدر الیکشن میں دوسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ یہ واقعات 1980 میں جمی کارٹر اور 1992 میں جارج ایچ ڈبلیو بش کے دور میں پیش آئے اور وہ دوسری مدت کے لیے صدر منتخب نہیں ہو سکے۔