انڈیا میں میڈیا نے اسرائیل سے مزید دو ’آواکس‘ خریدنے کی منظوری دیے جانے سے متعلق خبر دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ چین کی ساتھ سرحد پر کشیدگی کے پیشِ نظر بھی کیا جا رہا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق آئندہ چند روز میں کابینہ کی سکیورٹی کمیٹی کی جانب سے اس معاہدے کی منظوری دے دی جائے گی۔
انڈیا کی حکومت اور اس کے حامی چین کے ساتھ کشیدگی کے بعد اب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انڈیا چین کے ساتھ ایک بڑی جنگ کی تیاری کر رہا ہے جس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کے ساتھ آواکس کے اس معاہدے کی حتمی منظوری کی خبر کو بھی چین کے ساتھ موجودہ کشیدگی سے جوڑ کر بی جے پی کی حکومت عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ چین سے سرحدی تنازعے کے لیے فوجی تیاری میں زیادہ فعال ہو رہی ہے۔
جدید جنگوں کے دوران زمین اور فضا میں پرواز کرنے والے سرویلینس (فضائی نگرانی) کا نظام فضائی دفاع کی کاروائیوں کے لیے ایک سازگار ماحول تیار کرتا ہے جسے عام زبان میں ائر ‘سرویلینس سسٹم’ کہتے ہیں اور اس کی مدد سے فضائیہ حملے کرتی ہے یا حملوں کو روکنے کی کارروائی کرتی ہے۔
فضا میں پرواز کرتا ہوا سرویلینس کا نظام یا جسے مختصراً ‘آواکس’ (ائربورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم) کہا جاتا ہے، اسے ان جگہوں یا ‘سپاٹس’ پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں زمین سے کی جانے والی سرویلینس ممکن نہیں ہوتی ہے۔
موجودہ حالات میں انڈیا کا اسرائیل سے دو اور آواکس خریدنے کے منصوبے پر پیش رفت انڈیا کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرسکتی ہے۔ بالاکوٹ کے حملے کے بعد جب پاکستان نے انڈیا کا طیارہ مار گرایا تھا تو اس وقت سے انڈیا میں آواکس کی ضرورت پر بحث دوبارہ سے چھڑ گئی تھی۔
یروشلم میں مقیم صحافی ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ اسرائیل سے آواکس خریدنے کے معاملے پر بات چیت تو کافی عرصے سے چل رہی ہے اور یہ کہ انڈیا کے پاس اسرائیل کے اسی قسم کے تین آواکس پہلے سے موجود ہیں۔
ان کے مطابق انڈیا اور اسرائیل کے درمیان دو ارب ڈالر کی مالیت کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت اسلحے کی سپلائی اور دفاعی سامان کی مشترکہ تیاری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس لیے اسے چین کے ساتھ انڈیا کی کشیدگی کو جوڑنا غیر منطقی ہے۔
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ دو نئے آواکس کی فروخت کے لیے اسرائیل دباو¿ ڈال رہا تھا۔
‘آج کل دونوں ملکوں کے خوشگوار تعلقات ہیں اور ایسے میں انڈیا کے لیے بھی یہی بہتر تھا کہ وہ اسرائیل سے یہ نظام خریدے کیونکہ تاخیر کی وجہ سے ان آواکس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا۔’
انڈیا میں چین کی سرحد پر کشیدگی میڈیا پر اب بھی ایک بڑا موضوع ہے۔ فرانس سے رفال لڑاکا طیاروں کی آمد اور اب آواکس خریدنے کی کابینہ کی جانب سے منظوری، دونوں کو چین سے کشیدگی کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے جو اسی برس مئی میں شروع ہوئی ہے۔
تاہم مشرا کہتے ہیں کہ انڈیا کو دیے گئے تین آواکس پاکستان کی فضا کی نگرانی کر رہے ہیں اور وہ اس وقت اسلام آباد اور راولپنڈی کی زمین کو دیکھ سکتے ہیں۔ ‘ان حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے دو آواکس کہاں تعینات کیے جائیں گے۔’
انڈیا میں آبزرور ریسرچ فاو¿نڈیشن کے سینیئر فیلو اور سکیورٹی اور سٹریٹیجک امور کے تجزیہ کار سوشانت سرین تسلیم کرتے ہیں کہ رفال ڈیل کافی عرصے پہلے طے پائی تھی لیکن کووِڈ کی وجہ سے اس کی پہلی سپلائی میں تاخیر ہوئی۔ ‘تاہم چین کی سرحد پر کشیدگی نے ان طیاروں کے حصول کی کوششوں میں تیزی پیدا کی۔’
سوشانت سیرین کہتے ہیں کہ ‘اسی طرح آواکس ڈیل بھی پہلے سے چل رہی تھی، لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ عمومی بیوروکریٹک سست روی کو بدلتے ہوئے حالات کے آگے جھکنا پڑا ہو اور اب دباو¿ یہ پڑا ہو کہ اسرائیل کے ساتھ آواکس کی ڈیل کو جلد مکمل کیا جائے۔’
وہ کہتے ہیں ‘اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کی اشیا کی خریداری ایک پرچون کی دکان سے شاپنگ کی طرح تو نہیں ہوتی ہے، ان کے حصول میں ایک وقت لگتا ہے۔ چاہے جو بھی ہو، اب جس ڈیل کو تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ اِس کے لیے ہمیں چین کا اور کسی حد تک چین اور پاکستان کے گٹھ جوڑ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔’
لیکن یروشلم سے ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ ‘یہاں دفاعی ذرائع اس ڈیل کو چین سے کشیدگی کے واقعے سے نہیں جوڑ رہے ہیں، وہ اس ڈیل کو انڈیا کے ساتھ ایک ڈیل سمجھتے ہیں جس پر کافی عرصہ پہلے دستخط ہوئے تھے۔’
‘اسرائیل کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جس کے ساتھ اس کی پندرہ ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوتی ہے۔ لیکن امریکی دباو¿ کی وجہ سے اسرائیل اپنی دفاعی ٹیکنالوجی چین کو نہیں دے پا رہا ہے۔’
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ اسرائیل نے چین کو بھی آواکس دینے کا معاہدہ کیا تھا لیکن ’امریکی دباو¿ کی وجہ سے ا±سے سنہ 2000 میں اِس معاہدے کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ تاہم امریکہ نے انڈیا کو آواکس فروخت کرنے کا اشارہ دے دیا تھا۔’
مشرا کہتے ہیں کہ ‘اسرائیل میں امریکی پابندیوں کو پسند نہیں کیا جاتا لیکن اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ جس طرح کے سٹریٹیجک تعلقات ہیں، جو یہودی ریاست کے دفاع کے لیے بہت زیادہ فوجی ساز و سامان مہیا کرتا ہے، اسرائیلی کی دفاعی صنعت چین کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے سے گریز کرتی ہے۔’
دلی میں مقیم دفاعی تجزیہ کار راو¿ل بیدی کہتے ہیں کہ آواکس کی خریداری کی یہ ڈیل گزشتہ سات آٹھ برسوں سے جاری ہے اور اگر فرض کریں کہ یہ کل فائنل ہوجائے تب بھی ان سرویلینس طیاروں کے حقیقی طور پر حصول میں 24 مہینے لگ سکتے ہیں۔
‘اصل میں آج کل ہر بات کو چین کے ساتھ کشیدگی سے جوڑ کر بیان کیا جا رہا ہے۔ اور تینوں افواج کے سربراہان یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے کسی بھی فوجی سامان کی خریداری کے سودے کو تیزی سے منظور کرایا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ ان حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ یہ سودا بہت بڑا ہے۔’
انڈیا کے صحافی سنہیش ایلیکس فلپ کہتے ہیں کہ انڈیا میں آواکس کی کمی کو 27 فروری 2019 کی پاکستان کے ساتھ فضائی لڑائی کے دوران محسوس کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس وقت پاکستان کے آواکس نے جو اس طرح کے دس سسٹمز سے لیس تھے، انڈیا کے ‘آئی’ کہلانے والے آواکس کی تبدیلی کے دوران کے وقت کا کارروائی کے لیے فائدہ اٹھایا تھا۔
فی الحال تو دو مزید آواکس کے حصول کی بات کاغذات کی حد تک ہے۔ تاہم کیا نئے آواکس کے آنے سے پاکستان کو کوئی خاص فرق پڑے گا؟
پاکستان کے دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر فہد مسعود کہتے ہیں کہ انڈیا میں دو نئے آواکس کے حصول کی خبر پر اسی قسم کا ہیجان دیکھا جا رہا ہے جو رفال کے حصول کے موقعے پر دیکھا گیا تھا۔
‘لیکن اس وقت میڈیا پر اوس پڑ گئی جب انہیں معلوم ہوا کہ رفال طیاروں کو باقاعدہ ایکشن میں آنے میں ایک برس لگ سکتا ہے۔’
‘اسی طرح آواکس سرویلینس کے لحاظ سے شاید ہی طاقت کے موجودہ توازن میں کوئی تبدیلی لاسکیں، جس کی دو وجوہات ہیں: ایک یہ کہ ان کی تیاری میں دو برس لگیں گے، دوسرا یہ کہ ان دو طیاروں کے مقابلے میں (پاکستان کے) 27 طیارے ایک بہت بڑا فرق ہے۔’
فہد مسعود کہتے ہیں کہ ‘اور اس کے علاوہ یہ دو طیارے پہلے تین طیاروں سے بہتر ہوں گے، لیکن چینی آواکس بھی نئی ریسرچ کی وجہ سے جدید تر ایجادات سے لیس ہیں۔ اس لیے چینی پلیٹ فارمز اگر ان سے بہتر نہیں تو کم از کم ان سے کم نہیں ہیں۔’
سکواڈرن لیڈر فہد کہتے ہیں کہ انڈیا کے ‘یہ پانچ (آواکس) پاکستانی فضائیہ کے سات طیاروں (چار سویڈن کے ایری آئی اور تین چین کے تیار کردہ) کے قریب سمجھے جاسکتے ہیں۔’
فہد مسعود کہتے ہیں کہ ‘لیکن پلواما کے واقعے کے بعد انڈیا کو 27 فروری کو اس وقت مایوس ہونا پڑا تھا جب ہوائی لڑائی کے دوران پاکستانی فضائیہ نے لڑاکا طیارے، ای ڈبلیو (ارلی وارننگ)، آواکس اور اپنے تمام وسائل کو ایک مربوط نظام کے طور پر اپنے سے کافی بڑی انڈین ائر فورس کے خلاف تعینات کیا تھا۔’
ان حالات میں جب انڈیا کے دو نئے آواکس جو اگر آج خرید بھی لیے جائیں تب بھی انڈین فضائیہ میں شامل ہونے میں انہیں کم از کم دو برس لگیں گے، اور رفال لڑاکا طیارے جنہیں استعمال کرنے کے لیے آواکس کے ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے آپس میں مربوط و منظم ہو کر کارروائی کرنے کی صلاحیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اس لیے پاکستان کے دفاعی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ انڈیا کو دو نئے آواکس کے مل جانے سے اسے پاکستان پر کوئی برتری حاصل نہیں ہوگی البتہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا تعداد کی کمی کو پورا کرنے کا دعویٰ ضرور کرسکے گا۔
پاکستانی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ائرمارشل جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، کہتے ہیں کہ ‘اس کے باوجود بھی وہ ایک براہِ راست جنگ کے لیے ہوائی سرویلینس کی صلاحیت میں (پاکستان سے) کم ہوگا۔