بی آر اے کے چیف گلزار امام کی ہندوستانی نشریاتی ادارے کیساتھ خصوصی انٹرویو

0
1128

گلزار امام بلوچ نے اپنی سیاست کی بنیاد 2002 میں بی ایس او امان سے شروع کی، جب تینوں بی ایس او انضمام ہوئے تو انکی وابستگی بی ایس او آزاد سے رہا، 2008 کو بی ایس او سے فراغت کے بعد بی آرپی میں شمولیت اختیار کی اور 2009 کو مسلح سیاست سے وابستہ ہوگے اور بی آر اے کے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل ہوگئے 2018 کو بی آر اے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔

گلزارامام گوریلا جنگجو رہنما اور بی آرا ے کے ایک دھڑے کے سربرا ہ ہیں اور میڈیا میں وقتاََفوقتاََبلوچ قومی جدوجہد اور بلوچستان کے دیگر مسائل پر اپنی خیالات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے ہندوستانی نشریاتی ادارے” نیوزانٹرونشن“ کے چیف ایڈیٹر وویک سنہا کو انٹرویو دیاہے ،جسے ادارہ سنگر انکے شکریہ کے ساتھ شائع کر رہا ہے۔

وویک سنہا

وہ کیا وجوہات تھے کہ بی آر اے دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ؟

گلزار امام

ہمارے بنیادی اختلافات لیڈر شپ کی طرف سے پاکستان سے بے مقصد مزاکرات کی کوشش سے شروع ہوئے جب تنظیمی و قومی فیصلے دو درباری لوگ کریں تو وہاں تنظیم و قوم سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔

وویک سنہا

(جواب کے تناظرمیں)کیا اس سے تقسیم درتقسیم سلسلے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگا؟کل کوئی آپ کے دھڑے سے ایسی اختلافات کو جواز بناکراورگروپ کے نام سے کام شروع کرے گا،اس طرح یہ سلسلہ بڑھتا رہتاہے۔؟

گلزار امام

سیاسی و مزاحمتی تنظیموں میں سپریم کونسل و سنٹرل کمیٹی کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار کرے، تو وہاں سے اپنے جائز مطالبات کے ہمراہ احتجاج و بغاوت ہر انقلابی کا فرض بن جاتا ہے، ہمیں دوستوں کے ساتھ بے بنیاد الزامات کے تحت کنارہ کش کرنے کی کوشش کی گی جس کو اکثریتی دوستوں نے مسترد کیا وہ تقسیم جو کسی انقلابی جنگ کیلے کار گر ثابت ہوسکتا ہے میرے نظر میں اےسی تقسیم سے کسی انقلابی کو گھبرانا نہیں چاہیے اگر ہم اس جنگ کے قومی معیار پر پورا نہیں اترتے تو ہمارے دوستو ں کا ہم سے جائز اختلاف ان کا حق ہوگا ۔

وویک سنہا

کیا آپ اپنی جدوجہد سے مطمین ہیں ؟

گلزارم امام

بلوچ قومی جدوجہد سے بالکل مطمین ہوں اپنے آپ سے کبھی یہ سوال ضرور کرتا ہوںکہ وطن کی آزادی کے لےے مجھے جو کرنا تھا یا مجھ پر فرض تھا میں وہ فرض پورا نہ کرسکا، زندگی رہی تو اسے پورا کرنے کی کوشش کرونگا ۔
اگر اس سفر کا مختصر جائزہ لوں اور ساتھےوں کی دن رات کی محنت کو دےکھےں تو بلکل مطمےن ہوں

وویک سنہا

کراچی میں اسٹاک ایکسچینج پر حملہ ہوتاہے،تحریک میں شامل کچھ عناصر اس کی مخالفت کررہے ہیں،اس پر آپ کی رائے کیاہے؟

گلزام امام

بنیادی طور پر فدائی حملوں نے پاکستانی قبصہ گیریت کو جو زک پہنچا یا اور بلوچ مزاحمتی جنگ کی جو نئی شکل دنیا کے سامنے ابھری اس حقیقت کے درمیان کراچی اسٹاک ایکسینج حملے کی مخالفت کرنے والوں کی کوئی حیثیت میرے نزدیک باقی نہیں رہتی، مخالفت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو عملاً مزاحمتی جنگ سے دستبردار ہو چکے ہیں۔

وویک سنہا

بلوچستان اپنی جغرافیہ کی وجہ سے گوریلا جنگجووں کے لئے جنت تصور کیاجاتاہے،کیاوجہ ہے کہ روزانہ فوج کے ہاتھوں نوجوان مارے جارہے ہیں؟حکمت عملی نہیں ہے؟لاپروائی برتی جاتی ہے؟بنیادی وجہ کیاہے؟

گلزارامام

پاکستان نے بلوچ گوریلا جنگ کو کریش کرنے اور کچلنے کیلئے جو طاقت لگایا میرے نزدیک وہ بری طرح ناکام ہوگیا کیونکہ بلوچستان گوریلا جنگ کیلئے ایک آئےڈیل زمین ہے ظاہر سی بات ہے ریاست اپنی فوجی طاقت کو پوری شدت کے ساتھ استعمال کررہا ہے۔
بلوچ مسلح مزاحمت کو کچلنے کیلے پاکستان نے اپنے پراکسی مزہبی گروپوں کو بھی پوری قوت کے ساتھ بلوچستان کے میدان جنگ میں اتار دیا ہے جس میں افغان طالبان، لشکر طیبہ اور جیش العدل سر فہرست ہیں جو پاکستانی اشاروں و مدد سے بلوچ قوم کے خلاف لڑ رہے ہیں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم نقصان اٹھا رہے ہیں لیکن پاکستانی تیاری کے برعکس ہمارے نقصان کم ہیں۔ البتہ دشمن کی حکمت عملےوں کو دےکھ کر ہمےں مزےد چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

وویک سنہا

پاکستان مسلسل کہہ رہاہے کہ بھارت بلوچ کی مددکررہاہے،اس میں کہاں تک صداقت ہے ؟

گلزار امام

پاکستان بلوچستان میں قومی مزاحمتی جنگ کو پراکسی جنگ ثابت کرنے کی ایک عرصے سے کوشش کررہا ہے، لیکن وہ اس میں ناکام رہا کیونکہ بلوچستان پر پاکستان کی ناجائز قبضہ کی حقیقت پوری دنیا پر آشکار ہوچکی ہے انڈیا سمیت دنیا کے دیگر ممالک اگر ہمیں فوجی و مالی سپورٹ کرتے تو بلوچ کے جنگ کی شکل مختلف ہوتی لیکن حقیقت میں بلوچ اپنی مدد آپ کے تحت قومی مسلح مزاحمت کو آگے لے جارہا ہے ۔
پاکستان جب بلوچ مزاحمت کو ختم کرنے کیلے چین سے مدد لے سکتا تو ہم انڈیا سمیت پوری دنیا سے مدد لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا سرکار میں اتنی ہمت و حوصلہ نہیں کہ وہ پاکستان کی چالاکی و مکارانہ سفارتکاری کے سامنے بلوچ کی مالی و سفارتی کمک کریں ۔ البتہ ایک خوشحال بلوچ رےاست نہ صرف ہندوستان کے لےے بلکہ اس خطے کی امن و سلامتی کے لےے اہم ہے،ہم ےہی امےد کرتے ہیں ہندوستان کی سرکار ، تھےنک ٹےنک اس حوالے ضرور سنجےدگی سے سوچھےں گے۔اس لےے کہ ایک مذہبی دہشت گرد رےاست سب کے لےے نقصان دے ہے،۔نہ صرف اس خطے بلکہ دنےا بھر کے لےے موجودہ پاکستان کا وجود تباہ کن ہو سکتا ہے۔

وویک سنہا

براس سے بلوچ قوم کس نوعیت کا امید رکھے ؟

گلزار امام

براس نے اپنے قیام سے لیکر آج تک اپنے جنگی حکمت عملیوں اور کارناموں سے بلوچ قوم میں ایک پر امید فضا قائم کردی ہے۔
براس بلوچستان میں موجود منتشر مزاحمتی قوتوں کو یکجا کرنے میں اہم پلیٹ فارم ثابت ہورہا ہے بلوچ قوم کو براس سے ایک سنگل بلوچ آرمی کے توقعات وابستہ رکھنے ہونگے جو بلوچ لیڈر شپ کی اہم مشن ہے ۔

وویک سنہا

اگلے دس سالوں میں آپ بلوچ قومی تحریک کو کہاں دیکھتے ہیں؟

گلزار امام

بلوچ وطن پر پاکستانی قبصہ گیریت کے خلاف مسلح مزاحمتی و سیاسی جدوجہد روز بروز توانا تر ہورہا ہے، تمام تر ریاستی جبر کے باوجود نوجوان نسل وطن کی آزادی کے لےے مسلح مزاحمت میں شامل ہورہے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کی اپنی آزادی کی جنگ میں شمولےت شعور سے جُڑا ہے،آج قوم ،خاص کر نوجوانوں کو احساس ہے کہ وہ ایک غلام قوم ہیں اور کتاب و علم کی رہنمائی میں جب مزاحمت آگے بڑھتی ہے تو اسے روکنا نا ممکن ہوجاتا ہے۔ شعوری جدوجہد ہی بلوچ قوم کی کامےابی اور منزل کا تعےن ہے۔
دس سالوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن بلوچ قومی غلامی کے خلاف طویل المدتی جدوجہدکے لےے زہنی طور پر ہم اپنی حکمت عملےوں کے ساتھ تیار ہیں۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here