مالی میں فوجی بغاوت، اسمبلی تحلیل، صدرگرفتار، کابینہ اراکین نظربند

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

مغربی افریقہ کے ملک مالی کے سرکاری میڈیا کے مطابق صدر ابراہیم بوبکر کیتا فوجی بغاوت کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔

مقامی ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ساتھ ہی حکومت اور پارلیمان کو بھی تحلیل کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’میں نہیں چاہتا کہ مجھے اقتدار میں رکھنے کی خاطر خون کی ایک بھی بوند بہائی جائے۔‘

اس اعلان سے چند گھنٹوں قبل ہی ملک کے صدر اور وزیر اعظم بو¿بو سیسے کو باغی فوجیوں کی جانب سے حراست میں لے کر ایک فوجی کیمپ منتقل کیا گیا تھا۔

فرانس اور خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

صدر بوبکر کیتا نے کہا: ’آج اگر ہماری فوج کے چند عناصر مداخلت کر کے یہ معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو میرے پاس اور کوئی چارہ ہی کیا ہے؟‘

اس سے قبل باغی فوجیوں نے کاٹی فوجی کیمپ پر بھی قبضہ کر لیا تھا جو دارالحکومت بماکو سے صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

مالی کے عوام صدر سے تو ناخوش تھے ہی تاہم فوج کو درپیش مسائل، مثلاً کم تنخواہ اور ملک کے شمالی اور وسطی علاقوں میں جاری جہادی گروہوں کے خلاف خطرناک کارروائیوں کی وجہ سے فوج بھی ان کے خلاف ہو گئی۔

2018 کے انتخابات میں کامیابی کی بعد کیتا دوسری بار صدر منتخب ہوئے تھے تاہم سرکاری سطح پر بدعنوانی، ملک کے معاشی استحصال اور کچھ علاقوں میں شروع ہونے والے فسادات کے باعث سابق صدر کے خلاف عوام کا غصہ عروج پر تھا۔

اس کے باعث گذشتہ چند ماہ میں ملک کے کئی حصوں میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔

صدر نے اپنے اقتدار کے بدلے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو بھی اقتدار میں شراکت کی پیشکش کی تھی تاہم دائیں بازو کی حزب اختلاف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے امام محمود ڈیکو نے حال ہی میں صدر کی جانب سے کی جانے والی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کی قیادت کاٹی فوجی کیمپ کے نائب کمانڈر کرنل ملک ڈیا اور ایک اور کمانڈر، جنرل سادیو کمارا، کر رہے تھے۔

بی بی سی افریقہ کے مطابق باغی کاٹی کیمپ پر قبضہ کرنے کے بعد دارالحکومت بماکو کی جانب بڑھے۔ یہاں کئی سو مقامی افراد پہلے سے ہی صدر کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع تھے۔ انھوں نے نعروں اور تالیوں سے باغی فوجیوں کا استقبال کیا۔

فوجیوں نے منگل کی دوپہر سابق صدر کی رہائش گاہ پر قبضہ کیا اور وہاں موجود صدر اور وزیراعظم دونوں کو حراست میں لے لیا۔

اطلاعات کے مطابق صدر کے صاحبزادے سمیت مالی کی قومی اسمبلی کے سپیکر، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ بغاوت میں حصہ لینے والے فوجیوں کی تعداد کیا ہے۔

اس سے قبل 2012 میں بھی کاٹی کیمپ میں تعینات فوجیوں نے جہادیوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں شکست کے بعد سینیئر افسران کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔

ابراہیم بوبکر کیتا نے ستمبر 2013 میں اقتدار سنبھالا اور ملک کو بغاوت اور عسکریت پسندی کے بعد متحد کرنے کا وعدہ کیا۔

واضح رہے کہ وہ سنہ 2012 میں طویل المدتی صدر امادو تومانی تور کا تختہ الٹنے کے بعد ہونے والے انتخابات جیت کر اقتدار میں آئے تھے۔

ایک سرکاری ملازم کے بیٹے، ابراہیم بوبکر سنہ 1945 میں جنوبی صنعتی شہر کوٹیالہ میں پیدا ہوئے،جو ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کا مرکز ہے۔

مالی کے صدر ابراہیم بوبکر کیتا نے 2018 میں انتخاب جیتے تھے تاہم کرپشن کے الزامات اور ملک کے معاشی استحصال کے باعث عوام میں ان کے خلاف غصہ بھی پایا جاتا تھا

ابراہیم بوبکر سنہ 1994 سے سنہ 2000 تک ملک کے وزیر اعظم بھی رہے جبکہ سنہ 2002 سے 2007 تک وہ قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے اور اگست 2018 میں انھیں دوسری بار ملک کا صدر منتخب کیا گیا۔

مالی میں فوجی بغاوت کی خبر آتے ہی اقوام متحدہ اور افریقی یونین نے تمام زیر حراست افراد کی رہائی کا مطالبہ کر دیا تھا۔

خطے کے ممالک کی اقتصادی تنظیم اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریکن سٹیٹس کے 15 اراکین نے بھی مالی کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرنے اور مالی کی رکنیت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہی تنظیم صدر اور ان کے مخالفین کے درمیان ثالثی کرنے کی کوششیں کر رہی تھی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی بدھ کو اس معاملے پر غور کرے گی۔

مغربی افریقی ملک مالی کا شمار براعظم کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ صدیوں تک اس کا شمالی شہر تمبکتو ایک اہم علاقائی تجارتی خطہ اور اسلامی ثقافت کا مرکز تھا۔

لیکن اس کی یہ اہمیت طویل عرصے سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔

سنہ 1960 میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد مالی کو خشک سالی، بغاوتوں اور 23 سال کی فوجی آمریت کا سامنا رہا اور 1992 میں پہلی بار ملک میں جمہوری انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔

سنہ 2013 میں حکومت کی درخواست پر فرانس نے مالی میں فوجی مداخلت کی اور کونہ کے قصبے پر قبضہ حاصل کرتے ہوئے اسلام پسندوں کے گڑھ ختم کر دیے۔

حکام نے سنہ 2015 میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تواریگ علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ بندی کے ایک معاہدے پر اتفاق کیا لیکن ملک کے کچھ حصوں میں کشیدگی برقرار رہی اور تواریگ باغی بھی وقتاً فوقتاً متحرک رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ مالی کے شمالی اور مرکزی خطوں میں القاعدہ سے وابستہ عسکریت پسندوں کے حملے بھی جاری ہیں۔

TAGGED:
Share This Article
Leave a Comment