حیات بلوچ کا قاتل کون ؟ایف سی اہلکار شاہد اللّہ یا ریاستِ پاکستان ؟ تحریر : رحیم بلوچ ایڈوکیٹ

0
1011

حیات بلوچ کیچ، مکران کے مرکزی شہر تربت کا رہائشی تھا ان کے خاندان کی طرف سے میڈیا کو دی گئی معلومات کے مطابق چار بہن بھائیوں میں حیات بلوچ کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایئر کا طالب علم تھا
کورونا کے وباء کی وجہ سے یونیورسٹی بند تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے آبائی علاقہ تربت میں مقیم تھا رپورٹس کے مطابق حیات بلوچ کے والد معزر محمد علاقے کی جانی پہچانی شخصیت ہیں اور کھجور کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

حیات بلوچ نہ صرف پڑھنے لکھنے اور نصابی سرگرمیوں میں ایک قابل طالب علم تھا بلکہ غیر نصابی اور رفاعی سرگرمیوں میں بھی وہ بھرپور حصہ لیتاتھا۔نئے اسٹوڈنٹس کو داخلہ لینے میں مدد دینے کا معاملہ ہو یااپنے علاقہ سے کراچی جانے والے غریب مریضوں کی مدد کرنا ہو وہ ہر معاملے میں پیش پیش رہتا تھا حیات بلوچ ایک خوددار نوجوان تھا جو محنت و مشقت اور مزدوری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتاتھا اب جب کورونا کے باعث یونیورسٹی بند ہوئی تھی تو اس نے اپنے والد کے ساتھ مل کر کھجور کے باغ کا ٹھیکہ لے لیا تھا۔ جہاں پر وہ دن رات کام کرتا تھا تاکہ آنے والے دنوں میں جب یونیورسٹی کھل جائے تو وہ اپنا خرچہ اپنے محنت کی کمائی سے برداشت کرپائے۔

جمعرات 13اگست 2020 کو تقریباً 11، ساڑھے 11 بجے کے قریب آبسر روڈ پر بلوچی بازار کے مقام پر ایف سی کی دو گاڑیوں کو جب نامعلوم حملہ آوروں نے بم دھماکہ کا نشانہ بنایا تو اس وقت حیات بلوچ اپنے والد، والدہ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ قریب ہی کھجوروں کے ایک باغ میں کام کر رہا تھا بم دھماکہ کے بعد پیراملٹری فورس کے اہلکاروں نے حسب دستور قرب و جوار کے علاقہ کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے حیات بلوچ کو اس کے والد اور والدہ کے سامنے لاتوں، گھونسوں اور بندوق کے بٹ سے شدید زد وکوب کرکے گھسیٹتے ہوئے جائے وقوعہ کے قریب روڈ پر لے گئے حیات بلوچ کے بوڑھے والد اور والدہ صاحبہ بڑی بے بسی کی حالت میں سفاک ایف سی اہلکاروں کی منت و سماجت کرتے رہے مگر بپھرے ہوئے ایف سی اہلکاروں نے ان بے بس والدین کی ایک بھی نہ سنی اور سرِ عام بندوق سے فائر کرکے حیات بلوچ کو آٹھ گولیاں مار دیں جس سے یہ ہونہار بلوچ طالب علم موقع پر جان بحق ہوگیا۔
سوشل میڈیا میں وائرل جائے وقوعہ کی ایک تصویر میں حیات بلوچ کا بوڑھاوالد خون میں لپ پت اس کی لاش کے سرہانے بڑی بےبسی اور بے چارگی کی حالت میں نظر آتا ہے جبکہ حیات کی والدہ اس کی لاش کے پاس بیٹھی دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے دھاڑیں مار مار کر روتی ہوئی نظر آرہی ہے شاید کہ یہ مظلوم بلوچ ماں آسمان والے خدا کو توجہ دلانا چاہ رہی ہے کہ دیکھ زمین والے خدا کتنے سنگدل اور طاقتور ہوگئے ہیں کہ جن کے دل میں نہ خدا کا خوف ہے اور نہ کسی قانون اور عدالت کا۔ زمین کے ان خداؤں نے اس بے بس ماں کی برسوں سے اپنی خون جگر، بے انتہا مہر و شفقت سے پالے پوسے لختِ جگر کو لمحوں میں اس سے ہمیشہ کیلئے چھین لیا۔

جائے وقوعہ کی ایک اور وائرل تصویر میں حیات بلوچ کے خون میں ڈوبی اس کا قلم اور کاغذ کا ایک ورق بھی نظر آتے ہیں جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فوجیوں نے اسے کیوں اس بے دردی سے قتل کیا۔ دراصل ریاست پاکستان مقبوضہ بلوچستان پر اپنے جبری قبضہ، نوآبادیاتی حکمرانی اور لوٹ و کھسوٹ کیلئے ایک قلم بردار بلوچ نوجوان کو اتنا ہی بڑا خطرہ گردانتا ہے جتنا بڑا خطرہ وہ ایک بندوق بردار بلوچ سرمچار کو سمجھتا ہے۔

ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں حیات بلوچ کی ماورائے عدالت سفاکانہ قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ عوامی و سیاسی حلقے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، حیات بلوچ کے کلاس فیلو، اساتذہ اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ حیات بلوچ کی بہیمانہ قتل کی مذمت کرنے لگے اور وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے جو تا دم تحریر ہذا جاری ہیں۔

فوجی ترجمان نے پہلے تو ریاستی دہشتگردی کے اس دلخراش واقعہ کو ایک حادثہ کہا حالانکہ حیات بلوچ کا قتل واضح طور پر قتلِ عمد کا جرم اور فوجی اہلکاروں کی سنگدلی کا ایک بدترین مظاہرہ ہے اطلاعات کے مطابق اب عوامی غم و غصہ کو سرد کرنے اور ریاستی دہشتگردی پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک ایف سی اہلکار مسمی شاہد اللّہ کو قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے تربت پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ایف سی اہلکار شاہداللّہ کو حیات بلوچ کے قتل کے جرم میں عدالتیں کوئی سزا دیتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کو بھی بحث نہیں کرتے کہ ایف سی اہلکار شاہد اللّہ ریاستی دہشتگردی کے اس سنگین واقعہ میں قربانی کا بکرا بنتا ہے یا معاملہ سرد ہونے کے بعد طاقتور پاکستانی فوج مقتول حیات بلوچ کے ورثاء کو ڈرا دھمکاکر عدالت کے روبرو ان سے قاتل کے ساتھ صلح کرنے اور دیت کے بدلے یا خدا کی رضاء کے نام پر قاتل فوجی اہلکار کو معاف کرنے کا بیان دلواتا ہے یہ سب باتیں ثانوی اور غیر اہم ہیں۔ یہ سب اصل مدعے سے توجہ ہٹانے کے ہتھکنڈے ہیں۔ اصل مدعا یہ ہے کہ حیات بلوچ کا قاتل کون ہے؟ اکیلے ایف سی اہلکار شاہد اللّہ حیات بلوچ کا قاتل ہے یا ریاست پاکستان قاتل ہے؟

جب ہم اس اہم سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں تو پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا قاتل ایف سی اہلکار شاہد اللّہ وقوعہ سے پہلے مقتول حیات بلوچ کو جانتا تھا؟ کیا اس کی حیات بلوچ کے ساتھ کوئی دشمنی تھی؟ کوئی زاتی کینہ و بغض اس کے دل میں تھا؟ ان سوالوں کا جواب تو نفی میں ہے قاتل اہلکار تو مقبوضہ بلوچستان کا باشندہ ہی نہیں ہے مقتول حیات بلوچ کو بھی اس نے غالباً پہلی بار دیکھا تھا پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اس کی حیات بلوچ کے ساتھ کوئی زاتی شناسائی اور دشمنی نہیں تھا تو پھر اس نے اس طرح سنگدلی کے ساتھ حیات بلوچ کو کیوں قتل کیا؟ اس قتل کا اصل کارن، محرک و مقصد کیا ہے؟

پاکستان ۔ بلوچ تعلقات کے تناظر میں دیکھیں تو حیات بلوچ کے قتل کا کارن واضح طور پر ریاستِ پاکستان کی بلوچ دشمنی ہے اس بہیمانہ قتل کا محرک بلوچ قوم سے ریاست پاکستان کی عداوت اور شدید نفرت ہے اور اس قتل کا مقصد بلوچ عوام کے دلوں میں ریاست اور اس کی سفاک فوج کا خوف بٹھانا ہےاس بلوچ دشمنی کے باعث ریاست پاکستان بلوچ نسل کشی کی سفاکانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے قوم دوست اور وطن دوست بلوچ سیاسی رہنماؤں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں، پڑھے لکھے بلوچوں ، نوجوان طلباء اور حقوق انسانی کے سرگرم عمل آوازوں سمیت بلوچ معاشرے کے ہر شعبہ زندگی سے اہل اور باشعور افراد کو چُن چُن کر جبراً لاپتہ اور ماورائے عدالت قتل کر رہی ہیں بلوچ نسل کشی میں اپنی معاونت کیلئے پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے کئی چھوٹے بڑے پرائیویٹ مسلح پراکسی ملیشیا بھی بنائے ہوئے ہیں جنھیں بلوچ عوام ڈیتھ اسکواڈ کہتے ہیں یہ ڈیتھ اسکواڈ بلوچوں کو ماورائے عدالت گرفتار، لاپتہ اور قتل کرنے میں فوج اور خفیہ اداروں کے شانہ بشانہ کارروائیاں کرتے ہیں ۔

یہ ریاست پاکستان ہے جوتربیت کے دوران فوج، ایف سی، خفیہ اداروں اور ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں کو بتاتا اور باور کراتا ہے کہ بلوچ پاکستان کے دشمن ہیں، پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں، اسلام و مسلمانوں کے دشمن اور کافر ہیں اس لئے بلوچوں کو ماورائے عدالت اٹھا کر غائب کرنا، ٹارچر کرنا، قتل کرنا ،ان کے گھر بار اور املاک کو تباہ کرنا جہاد ہے بلوچوں کا مال و متاع مال غنیمت ہے اس لئے پاکستانی فوج و دیگر سکیورٹی ادارے مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کو بلا ہچکچاہٹ ماورائے عدالت اٹھاکر لاپتہ کرنے ، فوجی ازیت گاہوں میں ٹارچر اور قتل کرنے جیسے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب تسلسل کے ساتھ کرتے رہے ہیں یہ ریاست ہی ہے جو بلوچ قومی آزادی کی جائز امنگ اور جدوجہد کو غداری جیسے قبیح فعل سے تعبیر کرکے سکیورٹی اہلکاروں کے اذہان میں بلوچ قوم کے خلاف نفرت کا زہر بھر دیتی ہے حیات بلوچ کے قتل کے وقت ایف سی اہلکاروں نے جس بربریت، لاقانونیت اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا وہ اسی ریاستی تربیت کا منطقی نتیجہ ہے فوجی اہلکار اس طرح کی نفرت ، تشدد اور تضحیک کا مظاہرہ ہر روز بلوچوں کے خلاف مقبوضہ بلوچستان کے طول و عرض میں کرتے رہتے ہیں ۔حیات بلوچ کی قتل کے حالات و واقعات اور عوامل و اسباب کا جائزہ لینے سے یہ بات عیاں ہے کہ ایف سی اہلکار شاہد اللّہ اکیلے ہی شہید حیات بلوچ کا قاتل نہیں ہے بلکہ اس کی یونٹ کے دیگر اہلکار اور پوری ریاست پاکستان حیات بلوچ کے قتل میں اعانت جرم کے مجرم اور شریک جرم ہیں۔

مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ توہین آمیز بات یہ ہے کہ حیات بلوچ کا قاتل ریاست پاکستان محض اپنے ایک اہلکار کو کچھ عرصہ کیلئے جیل مین بطور مہمان بٹھا کر بلوچ عوام سے اپنے عدل و انصاف کی جے جے کار کرانا چاہتی ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here