ہم آٹھ سو سال یا اٹھارہ سوسال پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو بھوک، پیاس، درندگی، حوس لالچ، وحشت پن اور غیر انسانی سلوک دیکھ کر ہمارے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،کوئی اس انسان کو درندہ وحشی کہتاہے تو کوئی مذہب کی پجاری سمیت حیوان کا درجہ دے دیتاہے ،اور دے بھی کیوں نہیں کیوں کہ وہ گد نما انسان جہاں جہاں سے گذرتے انکے تلواریں اور پاو¿ں سروں اور انسانی لاشوں پر سے ہوکر گذرتے تھے۔
ماناکہ پیاس کیلے انسانی خون اور پیٹ کی دوزخ بھجانے کیلئے انسانی گوشت کا استعمال کرتے تھے۔یہ تاریخی حقائق نامہ دیکھ کر اکثر یہ سوچتے ہونگے کہ وہ کیسے انسان ہونگے ؟ وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ،ماناکہ وہ انسان نہیں انسان کے نام پر کلنک تھے ۔ جو ذاتی مفاد ات کو مختلف نام دیکر انسانی خون آسانی سے بہاتے تھے جیسے ہم اپنی پیٹ بھرنے کیلئے مختلف پرند اور چرند کا خون بہا کر اس پر کوئی پشیمانی ندامت محسوس نہیں کرتے۔
ٹھیک اسی طرح وہ انسانی خون بہاکر اپنے شوق پوراکر لیتے تھے۔ کوئی ٹاور بناتا تو کوئی بلڈئنگ ،یعنی انسانی کھوپڑی سے اینٹ کا کام لیکر اپنے غرور کو تسکین پہنچانےکے مختلف ٹوٹکے استعمال کرکے اپنی درندگی کا سامان کرتے تھے ۔آج یہ باتیں ہر کوئی سن کر انھیں لعن تعن کرکے اپنے ذہن کو تسکین پہنچاتے ہیں مگر ایک لمحہ کیلے نہیں سوچتے کہ وہی درندگی موجودہ انسان کے ساتھ اب بھی ہورہاہے، مگر لوٹنے قتل کرنے کے آلات جدید ذہن جدید ،شیطانی چالیں بھی جدید چلائی جاتی ہیں ۔
وہی اٹھارہ دوہزار سال والی ذہنیت انسان کے جین میں رچابساہے ۔اگر ایسا نہیں تو کیوں ہم لوٹ مار ،استحصال ،قتل، ظلم بربریت پر خاموش ہیں ؟ وہی قتل جو ایک ہی پل میں سرتن سے جداکر جاتاتھا، مگر آج جدید دور میں بارود زریعے زیزہ ریزہ کیاجاتاہے ۔اگر جسم سالم ہے تو اس میں پانچ سو ہزار گولیاں پیوست کی جاتی ہیں ۔کوئی رحمدل ہے تو دس گولیاں اسکے سینہ میں کھساکر جنت کا خواب دیکھ تاہے ،کوئی دنیاوی دولت اکھٹاکرنے کیلئے معصوم شہریوں کو بندوق کے نوک پر نام نہاد ریاست کے نام پر اٹھاکر اس پر درندگی وحشت کرکے اسکے جسم میں کیلیں ٹھونک کر یا کرنٹ دیکر ،اسے پانی میں ڈبو دیتاہے ۔محض اس لئے کہ یہ بتانا ہے کہ آپ کی جمع پونجی کہا چھپا ہواہے؟ اسے چھپانے والا طاقت کون ہے ؟اگر یہ راز بتاو¿گے تو تمہیں زندہ لاش بناکر چھوڑاجائے گا اگر نہیں بتاو¿وگے تو نعش جنگلی حیوانوں کے نذر کرکے ورثا کو زندگی بھر آپ کے آنے کے انتظار میں تڑپا تڑپاکر اپنی موت آپ ماراجائے گا۔
یہ دھمکیاں ہزار دوہزار سال کے نہیں آج کے جدید انسان جدید ذہن کے ہیں، جہاں انسان چاند اور سیاروں پر محوسفر ہے ۔وہ اپنے آپ کو عقل قل سمجھ رہاہے انسان تو انسان وہ اپنی جگہ اپنے آپ کو چرندپرند اور نباتات کا مسیحا سمجھتاہے ۔یہاں وہی کہاوت جچتاہے کہ چراغ تلے اندھیرا ۔ سچائی بھی یہی ہے کہ آج انسان تو موجود ہے مگر اسکا سوچ اپنے اختیار میںنہیں وہ روبوٹ بن کر جی رہاہے۔ اس لئے اسکے اردگرد یا سامنے جو درندگی آج ہورہاہے وہ اُسے دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں اگر دکھائی دیتاہے تو صرف ماضی وہ ماضی میں سوچتا ماضی میں پلتا ہے ،اگر اسیانہیں ہوتاتو کم سے کم اس جدید سے جدید صدی میں وہی سائیکل نہیں گھومتا جو ہزار دوہزار سال پہلے گھومتا چلا آرہاہے۔
اس بات پر کسی کو اختلاف یا شق ہو تو بلاجھجھک اپنے ضمیر سے پوچھ لے کہ ُاس انسان کے درندگی اور آج کے جدید انسان کے درندگی میں کتنا فرق رہ گیاہے ؟یقیناََ یہ فرق اتنا ہی ہوگا جتناکہ ایک سکہ کے دورخوں کا ۔کسی کو اپنے انسانیت پر گھمنڈ ہے تو وہ اپنے ہی اردگرد کا مشاہدہ کرکے دیکھ لیں۔آج کا ”اردگرد“ یعنی پوری دنیا بزریعہ سیٹ لائٹ ایک فٹ سے بھی کم فاصلہ پرہ چکا ہے ،ہر چیز آئینہ کی طرح آپ کے آنکھوں کے سامنے پانی کی طرح شفاف ہے ۔اگر اس کے باوجود کوئی یہ کہئے کہ میں انسانی حالات اور ظلم بربریت سے ناواقف ہوں تو یہ ایک سفید جھوٹ ہوگا۔ہاں وہ واقف ہے لیکن اپنی ذاتی لالچ اور ابن الوقتی کی وجہ سے اپنے آپ کو لاعلم رکھا ہوا ہے ۔وہ ہر چیز بارے انکے حدود قیود بارے مکمل جانکری اور عبور رکھتاہے ۔مثلاََ دنیا کے کسی بھی کونے پر چلے جائیں بذریعہ سوشل میڈیا دنیا کے ہر کونے کا خبر ایک پل میں ہی آپ تک پہنچ جاتاہے ۔ فرض کرلیں آپ کومعلوم ہے کہ بلوچستان ملک ہے اور بلوچ ایک بے زرر قوم ،آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان نام کا ملک ہے جو 73.74 سال پہلے نہیں تھا ۔غرض آپ پاکستان پنجابی فوج اور پنجابی اشرافیہ بارے سوفیصد علم رکھتے ہیں کہ یہ بدتہذیب ابن الوقت انسانیت کے قاتل ہیں ۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ لاکھوں بلوچوں کے خون سے پنجابی کے ہاتھ رنگین ہیں ، پاکستانی پنجابی انسانی تمام خصلتوں سے عاری قوم ہے،اگر آپ پنجابی کو وحشت درندگی بارے اکیسویں صدی کا منگول کہیں توبے جانہ ہوگا ۔ کیوں کہ پنجابی منگولوں کی طر ح اب بھی نہتے معصوم بلوچ ،سندھی اور پختون اقوام کا خون پی کر جی رہے ہیں ۔
روزانہ دسیوں حیات مرزا و¿ں کو انکی اپنی ہی ماو¿ں کے آنچل ( جو اپنے بچے پر مکھی کے بیٹھنے کو برداشت نہیں کرسکتاتھا)میں باندھ کر قتل کیا جاتاہے ۔اسلئے کہ اسکے جیب میں قلم ہے ۔ انھیں ڈر ہے کہ یہی قلم چل کر ہمارے قاتل ہاتھ اور شیطانی دماغ کو انسانیت کے قالب میں ڈھال کرانسانیت کا درس سکھا کر ماضی سے نکال کر احتساب کرے گا ۔کہاوت ہے کہ ہر قاتل اپنے پیچھے ایک نہ ایک نشان ضرور چھوڑ جاتاہے تو حیات کے قاتلوں نے بھی وہی غلطی کی جب انھیں لٹاکر اسکے آنکھوں پر اسکے ماں کی آنچل اوڑھ کر سینہ میں گولیاں پیوست کیں تو قلم جیب سے نکل کر اسکے خون میں ہی ڈوب کر سیاہی بجائے مقدس خون سے ہی اپنا مقدس پیٹ بھرلیا ۔یعنی وہ انسانی درندگی کی تاریخ جو سیاہی سے اپنا پیچھا نہیں چھڑاسکا اب خون سے لکھاجائے گا کہ وہ جدید انسان جو اپنی جدیدت پر نازاں تھا وہ کتنا وحشی اور ظالم تھا؟ اب یہ ذمہداری آج کے جدید انسان کا ہے کہ وہ خون سے لکھا گیا تاریخ کا مقابلہ ماضی میں کس طرح کرکے انسان ہونے کا لقب پائیں گے؟ ۔
٭٭٭