پاھار -چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

پاھار
اقوام عالم کی خاموشی سے
بلوچستان میں ریاستی جنگی جرائم میں اضافہ
ماہِ جولائی میں 35فوجی آپریشنز میں 40 افرادلاپتہ،29لاشیں برآمد،2سوسے زائد گھروں میں لوٹ مار
سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

پاکستان اپنی جنگی جرائم کی وجہ سے نہ صرف ہمسایہ ممالک،اس خطے بلکہ دنیا کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔
بلوچستان میں 27 مارچ1948 سے پاکستانی قبضے کے روز اول سے ریاستی جنگی جرائم جاری ہیں مگر حالیہ دور میں ان جنگی جرائم کو26 اگست2006 کے تناظر میں دیکھیں تو صورت حال واضح ہوجاتی ہے، جب نواب اکبر خان بگٹی اور انکے درجنوں ساتھیوں کو پاکستانی فوج نے تراتانی کے مقام پر نیوکلر بموں سے نشانہ بنا کر شہید کیا۔عالمی جنگی قوانین سے بالا تر پاکستانی فوج نے بزرگ 80 سالہ بلوچ کی لاش کو بھی قوم کو دینے سے انکار کردیا اور لاش کوتابود میں تالا لگا کر دفن کر دیا۔


بلوچ قوم کی لاکھ احتجاج کے باوجود آج تک اس قتل کوانصاف نہ مل سکا۔ٹھیک ایک سال بعد25 اگست کو نواب بگٹی کی پہلی برسی پر ضلع کیچ کے مین تربت بازار شہید فدا احمد چوک پر پاکستانی فوج نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے بی این ایم بلیدہ کے رہنما الطاف بلوچ شہید اور کئی زخمی ہوئے۔
پھر سلسلہ طوالت پکڑتا گیا۔ٹھیک ایک برس بعد31 اگست2008 کو بی این ایم کے رہنما رسول بخش مینگل کی حراستی قتل کی گئی۔


حالیہ دور کی ریاستی جنگی جرائم میں تیزی اور نہ رکھنے کا سلسلہ2009 سے شروع کیا گیا جب ہر دلعزیز رہنما چئیرمین غلام محمد بلوچ،لالہ منیر،شیر محمد کی مسخ لاش9 اپریل کو مرگاپ سے ملیں۔
اسکے بعد تاحال یہ سلسلہ،ٹارگٹ کلنگ،حراستی قتل عام و دیگر شکلوں میں جاری ہے۔سیاسی لیڈروں،کارکنوں،ڈاکٹروں،پروفیسروں نیز تمام مکاتب فکر کے افراد کی اغوا،مسخ لاشوں کا سلسلہ جاری ہے۔


پاکستانی فوج کی جنگی جرائم کے بلوچستان میں کئی چہرئے ہیں،جہاں بلوچ فریڈم فائٹرز میدان جنگ میں دشمن سے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں تودشمن فوج انکی لاشوں کی بے حرمتی کرتی ہے،جیسا کہ30 جون2015 کو آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے گاؤں پر فوج دھاوا بولتی ہے کئی نہتے لوگوں کو شہید کرنے کے ساتھ کچھ جانباز سرمچار بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں جس میں ڈاکٹر صاحب کے بڑئے بھائی،بھتیجے،بھانجے و دیگر رشتہ دار شامل ہوتے ہیں انکی لاشوں کو عالمی قوانین و تہذیب سے عاری اسلامی فوج گاڑی کے پیچھے باند کر پورے علاقے میں گھسیٹتی ہے۔


یہی تاریخ پاکستانی فوج مقبوضہ بلوچستان میں بار بار دہراتی رہی ہے۔اسی سال26 اپریل کو بی ایل ایف کے چار سرمچاروں کے ساتھ دشمن فوج یہی کرتی ہے،چوبیس گھنٹے بہادری سے دشمن سے لڑتے ہوئے نوجوان جانباز جب شہید ہوتے ہیں تو انکی لاشوں کو اسلامی فوج گاڑی کے پیچھے باندھ کر پورے علاقے میں گھسیٹتی ہے۔


لسٹ طویل ہے یہاں صرف آخر میں ایک مثال قارئین کے سامنے ہے جب تیس جون2016 کو بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھی مستونگ کلی دتو میں سماجی رابطے کی میٹنگ میں ہوتے ہیں اور رات کے آخری پہر پاکستانی فوج ان نہتے سیاسی رہنماؤں،کارکنوں کو بھوند ڈالتے ہوئے شہید کر دیتا ہے،اور فوجی ترجمان انکو مزاحمت کار قرار دے کر تمام انسانی و عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑا دیتا ہے۔


لیکن پاکستانی فوج کی جنگی جرائم پر دنیا سمیت ہمسایہ ممالک بھی خاموش ہیں۔ مقبوضہ بلوچستان میں عالمی میڈیا کی پہنچ دور کی بات ہے خود پاکستانی میڈیا کو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے،اسی لیے وہاں جاری ریاستی جنگی جرائم کو دنیا کے سامنے لانے نہیں دیا جاتا۔


ریاستی جنگی جرائم کے مقبوضہ بلوچستان میں کئی اشکال ہیں،دوران آپریشن خواتین و بچوں کو لاپتہ کرنا،خواتین کی آبروریزی،نوجوانوں کو اغوا انکے ساتھ جنسی زیادتیاں،دوران آپریشن گھروں میں لوٹ مار،حراستی قتل عام،گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کھلے عام استعمال،بمباری،مال مویشیوں کو اُٹھا کر لے جانا وغیرہ وغیرہ۔
ان جنگی جرائم میں پاکستانی فوج کے اور بھی چہرے ہیں،لوگوں کو اغوا کرکے ان سے تاوان مانگا جاتا ہے ایسے درجنوں شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔


حالیہ دنوں ایک پاکستانی میجر کی ہلاکت کے بعد بہت سے ایسے شواہد سامنے آئے جس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ درندہ صف فوجی کیسے جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔میجر ندیم کو تصاویر اور ویڈیوز میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح چھوٹے بچوں کو اپنی جنسی و دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا۔کنسٹرکشن کے نام پر پنجاب و دیگر علاقوں سے مزدورں سمیت کمسن بچوں کو مقبوضہ بلوچستان میں لایا جاتا ہے اور بچوں کو جسمانی تسکین کے ساتھ فوجی بندوق تھمادی جاتی ہے،میڈیا سمیت تمام آزادی صحافت پر یقین رکھنے والے اور انسانی حقوق کے اداروں کو ایسے جنگی جرائم کے خلاف آواز اُٹھانا چائیے۔


جولائی کے آخر میں چمن کا واقعہ ہو یا پشتونستان کے واقعات ہوں یاگلگت بلستان ہو،یا پاکستانی زیر قبضہ کشمیر ایسے جنگی جرائم بلوچ عوام سمیت تمام مظلوم اقوام پر مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ لوگوں کو کھلے عام قتل کرنے کمیٹیوں کے نام پر انسانی خون کا سودا پاکستانی صاحب اقتدار،فوج و کٹھ پتلی حکومتوں کا شروع سے شیوا رہا ہے۔
مگر اب اس قابض ریاست کے زیر قبضہ مظلوم اقوام،بلوچ،سرائیکی،سندھی،پشتون،مہاجر اُردو اسپیکنگ، پشتون،گلگت بلستان، پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے لوگوں کو مل کر موثر جدوجہد کی ضرورت ہے،تاکہ تہذیب سے عاری ریاستی فوج کو پاکستان یعنی پنجاب تک محدود کرتے ہوئے تمام اقوام اپنی آزاد حیثیت قائم کرتے ہوئے اپنی قومی تشخص کی بحالی کو یقینی بنائیں۔
مقبوضہ بلوچستان میں جولائی کے مہینے میں ریاستی جنگی جرائم عروج پر رہا۔جہاں ہرنائی،کیچ،گوادر،دشت خاص کر ضلع آواران کے علاقوں جھاؤ،وادی مشکے،کولواہ خاص فوجی نشانے پر رہے۔گن شپ ہیلی کاپٹروں سمیت پاکستانی زمینی فوج نے آہن وآتش برسائے اور سینکڑوں لوگوں کو بے گھر کیا۔
قابض ریاستی بدمعاشیوں کو دنیا کے سامنے مزید اجاگر کرنے کے لیے بہترین سفارتی اور میڈیا حکمت عملی کی ضرورت ہے،جو موجودہ وقت میں ناگزیر ہو چکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہ جولائی 2020 پر
بی این ایم کی
تفصیلی بیان

Share This Article
Leave a Comment