انڈیا نے لداخ میں بھاری تعداد میں فوج تعینات کردی

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

انڈیا اور چین کے درمیان کمانڈروں سطح کی بات چیت کے باوجود لداخ میں صورت حال کشیدہ ہے اور ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر فوج کی مزید تعیناتی رپورٹ کی گئی ہے۔

انڈین خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق دونوں ممالک کی افواج کے درمیان اتوار کے روز 11 گھنٹے تک کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات جاری رہے جس میں انڈیا نے واضح طور پر کہا ہے کہ انڈیا اپنی سرزمین کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا اور یہ کہ پینگونگ تسو جھیل اور دوسرے متنازع مقامات سے جلد از جلد افواج کو واپس لیا جانا چاہیے۔

دریں اثنا سوموار کو انڈیا کی دوسری خبررساں ایجنسی اے این آئی نے خبر دی ہے کہ چین کی جانب سے 17 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کے جواب میں انڈیا نے لداخ میں دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او) اور دیپسانگ میدانی علاقے میں فوج کی بھاری نفری تعینات کی ہے اور اس کے ساتھ ٹینک کے ریجیمنٹس بھی تعینات کیے گئے ہیں۔

اے این آئی کے مطابق حکومتی ذرائع نے بتایا: ‘ہم نے ڈی بی او اور دیپسانگ کے میدانی علاقوں میں بڑی تعداد میں فوج اور ٹینکس کو تعینات کیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹی-90 ریجیمنٹ کو بھی تعینات کیا گیا ہے جو کہ ہمارے مسلح شعبے کا حصہ ہے۔’

ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ تعیناتی قراقرم درے کے پاس پیٹرولنگ پوائنٹ 1 سے دیپسانگ کے میدانی علاقوں میں کی گئی ہے جہاں چین نے اپریل اور مئی کے مہینے سے 17 ہزار سے زیادہ فوجی جمع کر رکھے ہیں اور پی پی-10 سے پی پی 13 کے درمیان انڈیا کی پیٹرولنگ کو روک رکھا ہے۔

فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انڈیا کی جانب سے وہاں اتنے فوجی تعینات ہیں کہ اگر چین کوئی غلط کوشش کرتا ہے تو انھیں ایسا کرنے میں پریشانی ہو۔

دولت بیگ اولڈی اور دیپسانگ کے سامنے چینی افواج کی تعیناتی سے قبل تمام علاقے کی نگرانی ماو¿نٹین بریگیڈ اور مسلح بریگیڈ کرتے تھے لیکن خبررساں ادارے کے مطابق وہاں 15 ہزار سے زیادہ فوجی اور بہت سے ٹینک سڑکوں اور ہوائی جہاز سے پہنچائے گئے ہیں تاکہ چین کی جانب سے کسی خطرے سے نمٹا جا سکے۔

ادھر پی ٹی آئی کے مطابق سینیئر کمانڈر سطح کی بات ایل اے سی پر چین کے زیر انتظام علاقے مولڈو میں ہوئی جہاں انڈین مندوبین نے واضح انداز میں کہا کہ مشرقی لداخ میں پہلے جیسی حالت کی بحالی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بیجنگ باقی ماندہ متنازع علاقے سے اپنی فوج فورا واپس ہٹائے۔

خیال رہے کہ گذشتہ مہینوں کے دوران لداخ کے علاوہ کئی دوسرے مقامات پر انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی نظر آئی ہے جو ابھی تک کسی نہ کسی صورت جاری ہے اور مئی کے مہینے میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں انڈیا کے 20 فوجی جوان ہلاک ہوگئے تھے لیکن چین کی جانب سے نقصانات کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔

اطلاعت میں بتایا گیا کہ چین کے فوجی ایل اے سی پر انڈیا کی سرزمین میں آ گئے لیکن وزیر اعظم مودی نے اپنے پیغام میں کہا کہ انڈیا کی سرزمین میں ‘نہ کوئی آیا ہے اور نہ اس کی زمین پر کوئی ہے اور نہ کسی حصے پر قبضہ کیا گیا ہے’ لیکن حزب اختلاف نے اس کے بارے میں حکومت سے سخت سوالات کیے ہیں۔

پی ٹی آئی کے مطابق چینی فوج گلوان وادی اور دوسرے کئی علاقے سے پیچھے ہٹی ہے لیکن پینگونگ تسو میں فنگر چار سے فنگر آٹھ کے درمیان چینی فوج پیچھے نہیں گئی ہے جیسا کہ انڈیا نے چین سے مطالبہ کیا تھا۔

اتوار کو سینیئر کمانڈر سطح کی پانچویں دور کی بات چیت میں علاقے میں فوج کی مزید کمی پر توجہ مرکوز رہی لیکن دونوں فریق اپنی اپنی افواج اور حکومت سے اس معاملے میں تفصیلی بات چیت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی۔

پی ٹی آئی کے مطابق فوجی سربراہ جنرل ایم ایم نراونے کو سوموار کو بات چیت کی تفصیل سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ مشرقی لداخ کی صورت حال پر تبادل خیال کیا گیا۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو بھی اس بات جیت کے متعلق بریف کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ جب انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی تو ان دونوں افراد نے چینی حکام سے رابطہ کیا تھا اور صورت حال کو مزید کشیدہ ہونے سے بچایا تھا۔

Share This Article
Leave a Comment