کوئٹہ : بلوچستان یونیورسٹی کی سالانہ تھیسز ایگزیبیشن سکیورٹی خدشات کے نام پر مؤخر

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ کی سالانہ تھیسز ایگزیبیشن سکیورٹی خدشات کے نام پر اچانک مؤخر کر دی گئی ہے۔

یہ ایگزیبیشن 24 سے 28 تاریخ تک جاری رہنی تھی لیکن حسب روایت سکیورٹی خدشات کا بہانہ بناکر اسے اچانک مؤخر کر دیاگیاہے۔

انتظامیہ نے طلبہ اور آرٹسٹس کو ہدایت کی کہ فوری طور پر ہال خالی کر دیا جائے جس کے بعد طلبہ میں بے چینی کی کیفیت پھیل گئی۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایگزیبیشن میں طلبا نے بلوچستان کے میجر مسائل سمیت روش فکر ایسے موضوعات جیسے ،ٹرانس جنڈر،مذہبوں فیصلوں میں دم توڑتی انسانیت،صرف ایک ماں کو بچے کیلئے عظیم دکھانے کی کوششیں کی جس کی وجہ سے مقتدرہ حلقوں کو ناگوار گزرا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدرہ حلقے اپنی تسلط کو برقرا رکھنے کیلئے اپنی روایتی مذہبی دھارے سے عوام کو الجھائے رکھنا چاہتے ہیں ۔انہیں شک ہے کہ روشن فکر ایسے موضوعات انہیں مقتدر حلقوں کے خلاف سر اٹھانے ، سوچنے اور سمجھنے میں مدد فراہم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقتدر حلقوں کو تشویش ہے کہ ایگزیبیشن میں بلوچستان کے میجر مسائل کو اجاگرکرنے سے ان کی کوششوں پر پانی پھیرجائے گا جو وہ بلوچستان میں گوڈگورننس ،ترقیاتی منصوبے، سیکورٹی کی بہتر صورتحال اور سرمایہ کاری کےلئے مناسب دعوے کرتےرہے ہیں ۔

اس سے قبل بھی قومی سلامتی کے نام پر اور سیکورٹی خدشات کو بہانہ بناکر عسکری اسٹیبلشمنٹ عوام کو بے وقوف اپنی من چاہی ہدف حاصل کرتی رہی ہے۔

یاد رہے کہ تربت سے تعلق رکھنے والے ماہل بلوچ نامی ایک طالبہ نے ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ کے درمیان ایستادہ مشہور قدرتی مجسمہ پرنسسز آف ہوپ کو پرنسسز آف تھرسٹ کے روپ میں دکھاکر گوادر میں حکومت پاکستان کی ان ترقیاتی منصوبوں کا پول کھول دیا تھا جس میں گوادر کو سنگاپور سے تشبیہ دیتارہا ہے۔

پرنسز آف تھرسٹ نامی اپنے مجسے میں طالبہ نے گوادر میں پانی کی سنگین بحران اور ایک بوند پانی کے لئے ترستے عوام کی حقیقی دکھ درد کو پیش کیا تھا۔

اس کے علاوہ گوادر کے ایک طالبہ ہانی اکرم نے اپنے آرٹ کی موضوعات اور موجود سماج میں ٹرانس جنڈر کی اذیت کوش زندگی اور اس کے وجود کے ساتھ کیے جانے والے برتاؤ اور ذہنیت کی بابت اپنا کام پیش کیا۔

ایک اور فائن آرٹس کی اسٹوڈنٹ نے اپنے تھیسز ‘The Mirror of Obsession’ پر مبنی گفتگو میں آرٹ احساسات اور انسانی نفسیات کے تعلق پر روشنی ڈالی اور انٹرویو میں انہوں نے اپنی تخلیقی محنت اور اس کے پیغام کو بیان کیا۔

اسی طرح یونیورسٹی آف بلوچستان کی فائن آرٹس نمائش میں گوادر سے تعلق رکھنے والی ایک باصلاحیت طالبہ کا آرٹ ورک اس سال کی سب سے زیادہ توجہ کھینچنے والی تخلیق بن کر سامنے آیا۔ جس کا موضوع تھا: “مذہبی فیصلوں میں کھوئی ہوئی انسانیت” ایک ایسا سوال جو آج کے معاشرے کے سامنے ایک آئینے کی طرح کھڑا ہے۔

شائقین کا کہنا تھا کہ یہ آرٹ ورک صرف ایک تصویر نہیں یہ معاشرے کی خامیوں فیصلوں اور کھوئی ہوئی انسانیت کی بازگشت ہے۔

نمائش میں ایک او ر باصلاحیت طالبہ نے اپنے آرٹ ورک کے ذریعے “Peace & Quiet” کے موضوع کو نہایت خوبصورتی اور نرمی کے ساتھ پیش کیا۔ اس کی پینٹنگز میں ماں اور بچے کے درمیان وہ خاموش رشتہ دکھایا گیا ہے جو الفاظ کے بغیر بھی بے حد پُرسکون اور بھرپور محسوس ہوتا ہے۔

انٹرویو میں طالبہ نے بتایا کہ اس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ حقیقی سکون شور کی غیر موجودگی میں نہیں، بلکہ اُن چند لمحوں میں ملتا ہے جہاں محبت، خاموشی کو بھی معنی دے دیتی ہے اس کے برش اسٹروکس، رنگوں کا انتخاب اور نرم احساسات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ خاموشی بھی ایک زبان رکھتی ہے۔

سیکورٹی خدشات کے نام پر موخر کئے گئے اس اہم نمائش کے بعد طلبا میں مایوسی پھیل گئی ہے ۔

کئی نوجوان آرٹسٹس کا کہنا ہے کہ چار سال کی محنت کے بعد نمائش کا اچانک مؤخر ہونا ان کے لیے انتہائی مایوس کن ہے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر چند آرٹ ورک کی نوعیت بھی وجہ ہو سکتی ہے تاہم انتظامیہ نے امتحانات کے دباؤ اور رش کو بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔

یونیورسٹی حکام کے مطابق امتحانات کے اختتام کے بعد نمائش دوبارہ منعقد کی جائے گی۔

Share This Article