شوکت بلیدی: عزم و وابستگی اور فکری وراثت | ڈاکٹرجلال بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
12 Min Read

آہ زندگی! تیرا یہ سفر بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ ہی جاتا ہے۔ زندگی کا سفر طویل ہو یا مختصر یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس مدت میں ہم نے اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑا، اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کیں، کس فکر کو آگے بڑھایا۔

یعنی اصل اہمیت ان نقشِ پا کی ہوتی ہے جو انسان اپنے حصے کے لمحوں میں چھوڑ جاتا ہے۔ مشاہدہ اس بات کے شواہد مہیا کرتی ہے کہ آزادی کی تحریکوں کی عمر طویل ہوتی ہے اور اس طویل مدت میں ایسی ہستیاں سامنے آتی ہیں جن کی طبعی عمر مختصر ہوتی ہے، مگر جو چند برس انہیں میسر آئیں ان میں انہوں نے صدیوں کا فاصلہ طے کیا۔ اس سفر میں وہ ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جن کی بازگشت دیر تک سنائی دیتی ہے۔

شوکت جان بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی ایک ایسی ہی ہستی تھی جن کا کردار فکری و ادبی سطح پر نمایاں تھا۔

شوکت جان سے میری پہلی ملاقات ۲۰۰۹ میں ہوئی۔ ان سے گفت و شنید کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ تحریک کے لیے میڈیا، ادب اور بیانیے کے کردار کا متمنی ہے۔ یہ ان کی دوراندیشی اور سیاسی پختگی تھی کہ وہ سمجھتے تھے آزادی کی تحریک کو اگر بقا، تسلسل اور نظریاتی استحکام فراہم کرنا ہو تو اس کے لیے عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکری تعمیر کو بھی مرکزی اہمیت دینی چاہیے۔

کیوں کہ آزادی کی وہ تحریکیں ہی تاریخ میں دوام پاتی ہیں جن کے پاس اپنی تحریری دستاویزات اور ادبی سرمایہ موجود ہو۔ اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ قبضہ گیر ہو یا اس کے حواری، آزادی کی تحریک کو زوال پذیر کرنے اور متنازعہ بنانے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں جن میں لٹریچر کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

لہذا گفتگو کا محور بھی زیادہ تر اسی مد میں ہوتا رہا کہ بلوچ قومی تحریک کو مسخ کرنے اور کمزور کرنے کی جو کوششیں قبضہ گیر کی جانب سے ہو رہی ہیں، ان کا حقیقی جواب سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ ایک فکری نظام کی تشکیل سے ہی دیا جاسکتا ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں تنظیمی اور تحریکی سطح پر ادب اور میڈیا کا مربوط نظام ہی تشکیل دینا ہوگا۔ شوکت جان کی اس مدبرانہ سوچ نے جس کے بعد انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا، ہماری گفتگو کو محض تعارف تک محدود نہ رہنے دیا بلکہ فکری و نظریاتی دوستی میں بدل دیا۔

انہی دنوں شوکت جان نے اپنے چند فکری ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’’ادارہ سنگر‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ دراصل اس بات کا عملی ثبوت تھا کہ وہ تحریک کے اندر فکری ادارہ سازی کی کتنی گہری ضرورت محسوس کرتے تھے۔ سنگر محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک ایسا ادبی و فکری مرکز ہے جو تحقیق، تحریر، بیانیہ سازی اور اشاعتی سرگرمیوں کو مربوط کرتا رہا اور ہنوز عمل پھیرا ہے۔ بلوچ قومی تحریک آزادی میں ادبی حوالے سے ماضی میں بھی ادارے بنائے گئے، جیسے ’’جبل میگزین‘‘ جو ستر کی دہائی شائع ہوتا رہا۔

اکیسوی صدی میں تحریک کی اس نئی لہر میں اس حوالے سے ایک خلا محسوس کیا جانے لگا، لہذا اس اس خلا کو پُرکرنے کے لیے شوکت بلیدی نے کلیدی کردار ادا کیا اور ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھ دیا جو گزشتہ سولہ برسوں سے ہم ’’سنگر‘‘ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ تحریک میں یہ اپنی نوعیت کا ایسا ادارہ ہے جس کا تسلسل کبھی ٹوٹا نہیں۔ شوکت جان نے اس خلا کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے عملی شکل دے کر تحریک کے فکری محاذ کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔

۲۰۱۲ میں انہوں نے ادارے کو مزید وسعت دیکر ’’سنگرمیگزین‘‘ کا آغاز کیا۔ ان کا یہ فیصلہ محض ماہانہ بنیادوں پہ نئی اشاعت نکالنے کا نہیں تھا بلکہ تحریک کو ایک مستقل ادبی میڈیا پلیٹ فارم فراہم کرنے کی کوشش تھی۔ سنگر میگزین نے نہ صرف خبری اور تحریکی مواد کو باقاعدہ شکل دی بلکہ تجزیاتی مضامین، ادبی تحریروں اور تاریخی جائزوں کے ذریعے تحریک کی فکری سمت کو واضح کرنے کی کوشش بھی کی۔

شوکت جان کی ادارت کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ میگزین کو ادب کے جذباتی تک محدود نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اسے ایک فکری و تحقیقی مجلہ بنانے میں سرگرم رہا تاکہ اسے مستقبل کے لیے حوالہ جات کا درجہ حاصل ہو۔ ان کی یہ کاوش رنگ لائی اور آج سنگر میگزین بلوچستان کی تحریک آزادی کی سب سے بڑی میگزین ثابت ہوئی جہاں گزشتہ تیرہ سالوں سے اس کا تسلسل برقرار ہے۔ میگزین کے ساتھ ساتھ انہوں نے ادارے کو مزید جامع شکل دینے کے لیے کتابوں کی اشاعت کا آغاز بھی کیا، اور اب تک تیس سے زائد کتب ادارہ سنگر کے تحت شائع ہوچکے ہیں۔

یہ عمل یقیناً بلوچ تحریک آزادی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے پہلی مرتبہ سیاسی و قومی مزاحمت تحریری صورت میں مستقل اور دستاویزی شکل میں سامنے آنے لگی۔ اس اشاعتی سلسلے نے نہ صرف بلوچ قوم کے نوجوانوں کو لکھنے اور تحقیق کرنے کا حوصلہ دیا بلکہ اس نے سماج میں بسنے والے ہر مکتبہ فکر پہ اثرات مرتب کیے۔ میگزین ہوں یا شائع ہونے والی کتابیں، یہ تحریک کے مزاحمتی شعور، اس کے سیاسی پس منظر اور تاریخی حقیقتوں کا بیانیہ ہیں۔ ان کی یہ کاوشیں دراصل بیانیے کی جنگ میں ایک مضبوط علمی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔

شوکت جان کی شخصیت میں وہ عنصر جس نے انہیں منفرد مقام عطا کیا، وہ تھا ان کے کام کا تسلسل اور نظم۔ ان کے کام کا یہ تسلسل اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ماہرانہ منصوبہ ساز تھے جو حالات کی رو میں بہنے کی بجائے مشاہدہ کرکے کام کرتے تھے۔

وہ ان ہستیوں میں سے تھا جن پہ کبھی تھکاوٹ طاری ہی نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جاتی تو اس کا عمل اس کی نفی کرتا جس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرتا کہ آزادی کی تحریکوں میں غنودگی اور تھکاوٹ نام کی کسی کا چیز وجود ہی نہیں۔ کہیں مواقعوں پہ میں نے بذاتِ خود یہ محسوس کیا کہ وہ جو کام ہاتھ میں لیتا اسے انجام تک پہنچائے بغیر دم سادھ نہیں لیتا، لہذا کام کو تکمیل تک پہنچانا ہی اس شیوہ تھا۔ ایسے رویوں کے حامل افراد ہی اداروں کو عروجِ بام عطا کرتے ہیں۔

آزادی کی تحریکیں زیادہ تر اپنے عملی محاذ کے باعث پہچانی جاتی ہیں، مگر ان کی اصل عمر ان کی فکری بنیادوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ انہی بنیادوں کو مربوط خطوط پر استوار کرنے کے لیے شوکت جان نے ساری عمر جدوجہد کیا۔ جو یہ ثابت کرتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے تناظر میں شوکت جان کا کردار صرف ایک ادارے کے ذمہ دار کا نہیں تھا بلکہ یہاں ہم نے ایک ایسے فرد کو دیکھا جو تحریک کی فکری سمت متعین کرنے میں بنیاد فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے ثابت کیا کہ وہ کارکن جس کا تعلق تحریر، تحقیق اور ادارہ سازی سے ہوتا ہے، اس کی اہمیت کبھی وقتی نہیں ہوتی بلکہ تحریک کے فکری تسلسل میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ گوکہ آج وہ ہم میں نہیں رہا، لیکن انہوں نے جس فکر کی بنیاد رکھی وہ اسے حیات بخشنے کا ذریعہ ہے۔

وہ ہم سے رخصت ہوگیا، ان کی بے وقت موت نے تحریک میں جو خلا پیدا کیا ہے وہ محض جذباتی یا شخصی نوعیت کا نہیں بلکہ ایک فکری اور ادارتی خلا ہے۔ شوکت جان جیسے مدبر کارکنوں کا جانا کسی بھی تحریک کے لیے ایک بڑا نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو نظریے کو منظم کرتے ہیں، تحریک کی فکری سمت قائم رکھتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جدوجہد جذباتی عمل کے بجائے فکری شعور کے ساتھ آگے بڑھے۔

شوکت جان کا کام اور طرزِ فکر اسی فکری تسلسل کا حصہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کا جانا ایک ایسے خلا کی صورت میں محسوس ہوتا ہے جو محض جذبات سے نہیں بلکہ مسلسل فکری محنت سے ہی پُر ہوسکتا ہے۔ عمر طویل ہو یا مختصر یہ کوئی معنی نہیں رکھتا، اہمیت فقط اس بات کی ہوتی ہے کہ انہوں اس مدت میں عملی طور پر کیا کیا۔

آج ان کا عملی کام ہمارے سامنے ہے، جس میں ان کا چھوڑا ہوا ادبی و فکری ورثہ۔ ادارہ سنگر، سنگر میگزین، شائع شدہ کتابیں، تحریری مواد اور سب سے بڑھ کر وہ فکری رویہ جو انہوں نے اپنے عمل سے تشکیل دیا کہ کام کا تسلسل اس میں کیسا نکھار پیدا کرتا ہے۔

یہی عمل آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا کام کرے گا۔ مزید یہ کہ شوکت جان نے جس ورثے کو تشکیل دیا اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ کسی فرد یا وقتی جذبات تک محدود نہیں بلکہ تحریک کے مجموعی فکری ارتقا کا حصہ ہے۔ یہ ورثہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کسی بھی قومی یا سیاسی جدوجہد کی اصل طاقت اس کے بیانیے اور نظریے میں ہوتی ہے، اور شوکت جان نے اسی بیانیے کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔

***

Share This Article