بلوچستان میں آئے روز بلوچ آزادی پسند قوتوں کی جانب سے بلوچ قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی تدراک اور وسائل سے لدے ٹرکس اور ٹرینوں کو نشانہ بنانے سمیت قومی استحصال میں شامل افراد پر حملوں سے ریکوڈک منصوبہ مالکان سمیت دیگر سرمایہ کار اور کانکنی کے شعبے سیکورٹی کی ناقص صورت حال کی وجہ سے متاثراور ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں جس سے انہیں اپنے سرمایہ ڈوبنے کا خدشہ ہے ۔
بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں اور دھمکیوں سے ریکوڈک پروجیکٹ کے مالک کمپنی بیرک مائننگ کارپوریشن نے حکومت پاکستان کی سیکورٹی کی ناقص صورتحال کی وجہ سےکام تعطل کا شکار رہی تھی ۔
گذشتہ روز بیرک مائننگ کارپوریشن کے عبوری چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) نے منگل کے روز ممکنہ واپسی کی خبروں کے بعد کہا ہے کہ کمپنی بلوچستان میں ریکو ڈک تانبے کی کان (جو دنیا میں اس دھات کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ ذخائر میں سے ایک ہے) سے وابستہ اپنے عزم پر قائم ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے دور دراز اور شورش زدہ مغربی علاقے میں واقع 7 ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ کمپنی اور پاکستانی حکام کے درمیان مساوی شراکت داری پر مبنی ہے، اور توقع ہے کہ 2028 کے اختتام تک اس کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔
رواں ماہ ’رائٹرز‘ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ بیرک کے بورڈ نے کمپنی کے اثاثے تقسیم کرنے کے امکان پر غور کیا ہے، جس میں ریکو ڈک کان اور کمپنی کے افریقی اثاثوں کی فروخت کا امکان بھی شامل ہے۔
مارک ہِل نے ’رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بیرک ریکو ڈک منصوبے اور پاکستان کے ساتھ اپنے عزم پر قائم ہے‘۔
بلوچستان میں تواتر کے ساتھ عسکریت پسندانہ حملے ہوتے رہتے ہیں، جس کے باعث کانکنی کے لیے سکیورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے, منصوبے کے لیے ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن بھی ضروری ہے تاکہ تانبے کے کنسنٹریٹ کو پراسیسنگ کے لیے کراچی منتقل کیا جا سکے۔
انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر قرض دہندگان 2 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد کا فنانسنگ پیکج ترتیب دے رہے ہیں، ریکو ڈک منصوبے نے 2024 میں بیرک کے سونے کے ذخائر میں 1 کروڑ 30 لاکھ اونس کا اضافہ کیا اور توقع ہے کہ پہلے مرحلے میں سالانہ 2 لاکھ ٹن تانبہ پیدا کرے گا، جو توسیع کے بعد دگنا ہوجائے گا۔
منصوبے سے 37 سال میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ فری کیش فلو کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بیرک کی جانب سے دیے گئے بیانات پاکستان اور کمپنی دونوں کے لیے ریکو ڈک کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، اسلام آباد اس کان کو اپنی معدنی پالیسی کی بنیاد بنانے کا خواہاں ہے، جب کہ کینیڈین کمپنی اسے اپنے طویل المدتی بڑے منصوبوں میں شمار کرتی ہے۔
’رائٹرز‘ کو اس ماہ ذرائع نے بتایا تھا کہ بورڈ کے بعض ارکان اور کچھ شیئر ہولڈرز کو خدشہ ہے کہ پاکستان اور افریقہ میں زیادہ خطرے والے اثاثوں سے وابستگی، خاص طور پر شمالی امریکا میں کمپنی کے زیادہ محفوظ آپریشنز کے مقابلے میں بیرک کی مجموعی ویلیوایشن کو متاثر کر رہی ہے، اور ممکنہ خریداری کی پیش رفت کے تناظر میں یہ تشویش مزید بڑھ جاتی ہے۔
بیرک 2022 میں کئی برسوں پر محیط قانونی تنازع کے حل ہونے کے بعد پاکستان واپس آئی تھی، اور تب سے یہ کان ملک میں سرمایہ کاری کا ایک فلیگ شپ منصوبہ بن چکی ہے، کیوں کہ پاکستان اپنے معدنیات کے شعبے میں مزید سرمایہ راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔