لداخ تا چاہبار چینی پیش قدمی، ایک نئی گریٹ گیم؟ …. میراث زِروانی

ایڈمن
ایڈمن
25 Min Read

دنیا کا موجودہ سیاسی،معاشی اور سماجی منظرنامہ تاریخ کے جس بدترین انتشار اور بحران کا شکار ہے وہ یقینی طور پر مروجہ سامراجی وسرما یہ درانہ نظام میں رہتے ہوئے امن، استحکام اور اقتصادی ترقی و خو شحالی کا راستہ تلاش کرنے والوں کیلئے گہری مایوسی کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے،اس ما یوسی کا اظہار موجودہ سامراجی سرمایہ دارانہ اقتصادی و سیاسی نظام کی محافظ بالادست حکمران قوتوں کی جارحانہ،سطحی اور غیر پائیدار پالیسیوں میں دیکھا جا سکتا ہے، ان پالیسیوں کے بارے میں کہا جاتا ہیکہ یہ ایک ایسے انتہائی محدود دور اور تنگ فریم کی حامل ہیں جن میں کسی دوسری طاقت و ریاست کے مفادات کو سمونے کی گنجائش یا تو باقی نہیں رہتی یا برائے نام رکھی جاتی ہے، اورجس تیزی کے ساتھ اقتصادی زوال میں شدت آرہی ہے مفادات کا یہ فریم بھی تنگ ہو رہا ہے،جس کے نتیجے میں بظاہر مضبوط ومربوط اور باہم گہرے اقتضادی و سیاسی تعلقات کے حامل سامراجی اتحاد بھی داخلی طور پر تضادات سے دوچار نظر آتے ہیں، جو انتشار اور غیر یقینی میں مزید اضافے کا باعث ہیں،لیکن تمام تر تضادات اورمسائل کے باوجود تمام علاقائی و عالمی طاقتیں اپنی بعض کمزوریوں اور بے بسی کے باعث ایسے اتحاد بنانے پر مجبور ہیں جو ان کے حریفوں یا دشمنوں کا راستہ روکنے یا انہیں شکست و ریخت سے دوچار کرنے میں کارگرو موثر ثابت ہوں، جس کیلئے دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر بھرپور طریقے سے عمل کیا جا رہا ہے۔

نت نئے اتحادوں کی ضرورت محض مخالف حریف پر غلبے کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنی بقاء اور ڈوبتے مفادات کو بچانے کے لئے بھی پیش آرہی ہے،یہ صورتحال کئی قسم کی گریٹ گیمز کو جنم دے چکی ہے، اگرچہ باہم حریفانہ کشمکش کی حامل علاقائی و عالمی طاقتوں کے سامراجی مفادات کے عظیم کھیلوں کا میدان پورا کرہ ارض بن چکا ہے مگر جنوب مشرقی وسطیٰ اور مغربی ایشیائی خطہ حالیہ دنوں پیش آنے والے دنیا و خطے کی سیاست،معیشت اور اسٹسریٹیجک صورتحال گہرے اثرات کے حامل بعض اہم واقعات اور تنازعات کے بعد انتہائی نمایاں حیثیت اختیار کر گیا ہے، اس حوالے سے یہ واضح امکان پایا جاتا ہیکہ آنے والے دنوں میں یہ پورا خطہ حریف علاقائی و عالمی طاقتوں کے مابین مفاداتی کشمکش کے گرد ایک نئی تصادم آئینہ گریٹ گیم کے وسیع میدان میں بدل سکتا ہے، جس میں آنے والی شدت اور وسعت کا خمیازہ باقی دنیا کو بھی ناگزیر طور پر بھگتنا پڑے گا۔

اس ممکنہ پیش منظر کا سبب جن حالیہ پیش آنے والے واقعات وتنازعات کو تصورکیا جارہا ہے ان میں ایک لداخ میں انڈیا چین فوجی تناؤ اور دوسرا چین اور ایران کے درمیان باہمی سیاسی، اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعاون پر مبنی 25سالہ معاہدہ اور اس کے ساتھ ہی ایران کی طرف سے انڈیا کو چاہبار پورٹ سے زاہدان تک ریلوے کے تعمیری پروجکٹ سے الگ کرنے کا اعلان توجہ طلب اور ناقابلِ نظراندازہیں، ان واقعات کی انتہائی اہمیت اور دوررس اثرات کا اندازہ اس امرسے بھی لگا یا جاسکتا ہیکہ دنیا میں آج ہر جگہ یہی موضوع سب سے زیادہ زیربحث ہے، جس میں یہ سوال بڑی شدت سے سامنے آرہا ہیکہ کیا ایشیاء کا یہ اہم ترین خطہ علاقائی و عالمی طاقتوں کی نئی متحارب صف بندیوں کی طرف بڑھ رہا ہے، اور کیا دنیا کی سیاست ومعیشت جو پہلے ہی سرمایہ داری کے کھوکھلے پن اور کورونا کی عالمی وباء کے باعث تاریخ کے بد ترین عدم استحکام اور بحران کا شکار ہے ان صف بندیوں کی تشکیل سے جنم لینے والے ٹکراؤ اور تناؤ کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہ سکے گی؟ اور کیایہ واقعات اور تنازعات کسی عالمی جنگ کا نقطہئ آغاز ہیں؟

اس کیفیت سے ظاہر ہوتا ہیکہ مزکورہ بالا حالات وواقعات کے بعد غیر یقینی اور تشویش کی شدت مزید بڑھ گئی ہے، جو بے جا اور بلاجواز نہیں ہے، کیونکہ اگر لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان شدت اختیار کرنے والے سرحری تنازعے کا پس پر دہ محرکات اور ممکنہ اثرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاملہ صرف دو طرفہ نہیں بلکہ خطے میں مختلف علاقائی و عالمی طاقتوں کے مابین جاری مفاداتی کشمکش اور خطے و دنیا کی سیاست و معیشت سے بھی گہرے طور پر جڑا ہوانظر آتا ہے، اس مقام پر اگر چہ انڈیا اور چین آمنے سامنے ہیں لیکن اس تنازعہ سے وابستہ مفادات رکھنے والے دونوں اطراف کے حمایتی علاقائی وعالمی کردار بھی اس دوران سرگرم نظر آئے، اس موقع پر امریکہ کی طرف سے بحرہ جنوبی چین کے متنازعہ علاقے میں دوطیارہ بردار جنگی بیڑوں کا بھیجنا لداخ تنازعے کی عالمی اہمیت کا ہی اظہار تھا، دوسری طرف جن محرکات کا عکس لداخ تنازعہ میں نظر آیا ان میں سب سے زیادہ نمایاں سی پیک کی گزر گاہ کو انڈیا سے لا حق ممکنہ خطرات سے محفوظ بنانا بھی چینی پیش قدمی کا ایک ممکنہ سبب قرار دیا جارہا ہے، بعض ماہرین وتجزیہ کاورں کے نزدیک انڈیا کی طرف سے چین کی سرحد اور خاص طور پر درہ قراقرم کے اس مقام کے انتہائی قریب جہان چین پاکستان اقتصادی رہداری کی گزرگاہ ہے پر تیزی سے فوجی انفر اسٹر کچر کی تعمیر کو نہ صرف وہاں اپنی فوجی برتری بلکہ سی پیک کے تحفظ کے خدشات پر چین لداخ کے اس اہم ترین حصے پر قابض ہو گیا، جس کے نتیجے میں غیر مصلح ہونے کے باوجود دونوں اطراف کے فوجیوں میں شدید جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں دوطرفہ جانی نقصان ہوا، ان جھڑیوں میں انڈیا کے 20 فوجی مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے، جبکہ چین کے بھی متعدد اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے، یہ جھڑپ دونوں طاقتوں کے درمیان جاری کشیدگی کوجنگی فضامیں بدلے کاباعث بنی، تاہم دونوں فریقین کی طرف سے معاملات کو جنگ کی بجائے مذاکرات سے طئے کرنے کا رویہ سامنے آیا ہے، اور بھارتی قومی سلامتی کے مثیراجیت ڈوول کے چینی حکام کے ساتھ با ت چیت کے بعد دونوں اطراف کی افواج اپنی موجودہ پوزیشن سے دودوکلومیٹر پیچھے ہٹ گئی ہیں، اور دونوں کے درمیان چار کلومیٹر کے فاصلے والے علاقے کو بفرزون قرار دیاگیا ہے، اس سمجھوتے کے بعد بظاہر یہ نظر آتا ہیکہ شایداب انڈیا اور چین کے درمیان 16 جون 2020 ء کو جھڑپوں کی شکل میں نظر آنے والے کسی فوجی تصادم اور جنگ کی فضا جنم نہ لے، لیکن لداخ پر شروع ہونے والی یہ گریٹ گیم جلد ختم ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی، کیونکہ چین کے بین الاقوامی معاشی و سیاسی غلبے کے دوررس مقاصد کے حامل میگا منصوبے بیلٹ اینڈ روڈکیلئے لداخ اپنے محلِ و قوع کے باعث انتہائی اہمیت اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے،خطے کے مختلف اہم ترین مما لک اور عالمی طاقتوں کے درمیان تجارت،آمدورفت اور حملہ آور افواج کی گذرگاہ کے حوالے سے لداخ صدیوں سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے، جس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہیکہ زارروس،چین اور برطانیہ کے مابین جو پہلی گریٹ گیم شروع ہوئی اس میں بھی لداخ حریف طاقتوں کی سرگرمیوں کا اہم مرکز تھا، اور ہر طاقت لداخ پر اپنا قبضہ یا اثر رسوخ چاہتی تھی، اور آج ایک بار پھر لداخ پر کنٹرول کیلئے جنم لینے والا تنازعہ ماضی کی گریٹ گیم کی تاریخ کو ایک با پھر دوہراتا ہوا نظر آتا ہے،تاہم ماضی کی گریٹ گیم کے بعض کرداروں کی تبدیلی اور پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدگیوں اور ایک بڑے سیاسی،سماجی،سائنسی اور معاشی و عسکری تغیرو تبدل کے باعث لداخ پر شروع ہونے والی نئی گریٹ گیم خطے اور دنیاپر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

ان خدشات کو تقویت لداخ میں چین بھارت جنگی فضا کے دوران امریکہ کی طرف سے انڈیا کی حمایت میں چین پر دباؤ ڈالنے کیلئے اپنے دوبڑے طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بحرہ جنوبی چین میں پہنچا نے سے ملتی ہے، جس کا مقصد لداخ میں انڈیا کے ساتھ جنگ کی صورت میں ہندچینی کے سمندر میں چین کا راستہ روکنا اور اس پر فوجی دباؤ ڈالنا تھا، دوسری طرف جاپان نے بھی چین کی طرف سے لداخ میں انڈیا کے کئی علاقوں پر قبضے کے اقدامات کی مخالفت کی ہے، جبکہ آسٹر یلیا پہلے ہی خطے میں امریکہ، جاپان اور انڈیا کے ساتھ چین مخالف اتحاد میں شامل ہے، اور اب برطانیہ بھی ہانگ کا نگ کی خودمختاری کے خاتمے کے چینی قانونی اقدام کے بعد دنیا میں چین کے بڑے مخالفین یا حریفوں کی صف میں شامل ہو گیاہے، جبکہ لداخ کے مسلے پر بھی برطانیہ کا وہی رویہ سامنے آسکتا ہے جو امریکہ کاہے، لہذالداخ میں چین بھارت سرحدی حدود کا تنازعہ اگر افہام وتفہیم سے حل نہیں ہوتا تو یہاں جاری کشمکش اور تصادم سے پورا خطہ اور باقی دنیا کی بھی سیاست و معیشت براہ راست متاثر ہوگی۔

تاہم صورتحال مزید تشو یشناک شکل اختیار کرتی ہوئی نظرآتی ہے، جس کا اظہار حالیہ دنوں سامنے آنے والے خطے میں دوسرے اہم واقعہ میں بڑا واضع دکھائی دیتاہے، یہ واقعہ ایران اور چین کے مابین اب تک غیراعلانیہ طور پر طئے پانے والے25سالہ اقتصادی، سیاسی اور اسٹریٹیجک باہمی تعاون کے معاہدے کی صورت میں سامنے آیا ہے،اب تک غیراعلانیہ اس لئے قرار دیا گیا ہیکہ زیر نظر تحریر تک اس معاہدے کی مکمل شقیں سامنے نہیں لائے گئے ، تاہم بعض میڈیارپورٹس اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدہ مکمل طور پر حتمی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے اہم ترین نکات عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی سامنے آچکے ہیں، جن کے مطابق چین ایران میں 25 سال کے دوران 400،ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، یہ سرمایہ کاری صرف توانائی، اقتصادی انفراسٹرکچر وبند رگاہوں کی تعمیر تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ مشترکہ طور پر جنگی ہتھیار یا اسلحہ سازی کی صنعت کو بھی فروغ دیا جائے گا، اور چین ایران کی سیکورٹی کیلئے بھرپور تعاون کرے گا، اس کے بدلے چین ایران سے 25 سال تک اتنہائی کم قیمت پر تیل اور گیس حاصل کرے گا، کہاجارہا ہیکہ اس معاہدے کے ذریعے چین نے ایران کو سیکورٹی کی ضمانت دے دی ہے، جو امریکہ اور سعودی عرب سمیت ایران کے حریفوں کیلئے ایک شدت دھچکاہے، بہرحال ایک ایسے وقت پر کہ جب چین لداخ میں بھارت اور بحرہ جنوبی چین کے خطے میں امریکہ و اپنے دیگر حریفوں کے ساتھ شدید تناؤ اور ٹکراؤ کی حالت میں ہے ایران جیسے امریکہ، اسرئیل اور سعودی عرب کے سب سے بڑے دشمن ملک کو اپنا اسٹریٹیجک اتحادی بنانا گئی سوالات کو سامنے لارہا ہے، جبکہ خطے کی موجودہ گرم ترین سیاسی فضا میں اس معاہدے کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہیکہ چین نے لداخ اور ہند چینی کے علاقوں میں امریکہ بھارت اور ان کے چین مخالف اتحادیوں کی صف بندی اور دباؤ ڈالنے کا جواب ایران کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد بنانے کی صورت میں دیا ہے، ایران کے چینی صف میں شامل ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ایشیا ء بھی ایک نئے ممکنہ تصادماور ٹکڑاؤ کی لپیٹ میں آگیا ہے، اگر چہ اس معاہدے پر ایرانی عوام کی ایک بڑی تعداد شکوک و شبہات اور ناراضگی کا اظہارکررہی ہے، اور اسے ایران کو چین کی نوآبادی میں بدلنے کے منفی نتائج کا حامل قرار دیا جارہاہے،مگر ایرانی حکمرانوں کو امریکی اقتصادی پابندیوں سے پیدا ہونے والی شدید معاشی تباہی اور امریکہ و اس کے اتحادیوں کی طرف سے مسلسل جنگی دباؤ سے نکلنے کیلئے چین واحد سہارا اور امید کی کرن نظر آیا،البتہ ایرانی عوام کے خدشات کے کسی حد تک درست ہونے کا مظاہرہ معاہدے کی باقاعدہ منظوری سے قبل ہی ایرانی حکام کی جانب سے انڈیا کو چاہبار سے زاہدان تک ریلوے ٹریک کی تعمیر کے منصوبے سے الگ کرنے کی صورت میں دیکھا گیا، اور اس کے ساتھ ہی ایران میں ایک گیس فیلڈ سے بھی بھارت کو الگ کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں ان ایرانی اقدامات کے بارے میں عمومی رائے یہی ہیکہ یہ چینی دباؤ اور حالیہ معاہدے کا نتیجہ ہیں، جو مستقبل میں چین کے ایران پر اقتصادی و سیاسی تسلط اور اس کی داخلی و خارجی پالیسی سازی پراثررسوخ میں بڑھاوے کا واضح امکان ظاہر کرتا ہے۔

اس کیفیت سے ظاہر ہوتا ہیکہ چین اب اپنے ماضی کے پس پردہ اور خاموش رہنے کے رویے کے برعکس امریکہ اور بھارت سمیت اپنے حریفوں کے ساتھ ٹکرانے اور دباؤ کو کاؤنٹر کرنے کیلئے کھل کر سامنے آگیاہے،اور اس میں ضمن میں اپنی چھتری یا قیادت تلے خطے میں ایک نئی صف بندی عمل میں لارہا ہے،جس میں ان تمام ریاستوں اور علاقائی و عالمی طاقتوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو نہ صرف چین کے عالمگیر اقتصادی ایجنڈے پر پورے اترتے ہوں بلکہ امریکہ انڈیا و دیگرچین مخالف اتحادیوں کے ستائے ہوئے یا دشمن بھی ہوں، اس ضمن میں اس کی پہلی کو شش علاقائی سطح پر بھارت کو تنہاکرنا اوراس کے گرد حصار کومزید تنگ کرنا دکھائی دیتی ہے، بعض حلقوں کے مطابق لداخ میں چینی فوجی اقدامات کے بعد انڈیا کی طرف سے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ اور ترقیاتی منصوبوں میں چینی کمپنیوں پر پابندی اور دیگر چین مخالف اقتصادی اعلانات کا بدلہ چین بھارت کے ایران سمیت خطے میں پائے جانے والے گہرے معاشی مفادات پر ہر جگہ کاری ضرب لگانے کی صورت میں لے رہا ہے، کیونکہ بھارت کی افغانستان اور سنٹرل ایشیاء سے تجارت کیلئے ایران کلیدی حیثیت ر کھتا ہے، جبکہ صرف تجار ت ہی نہیں بلکہ توانائی ودیگر شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں بھی بھارتی سرمایہ کاری نمایاں رہی ہے، اور اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی انڈیا سب سے زیادہ ایران پر انحصار کرتا آیا ہے، اگر چہ امریکی دباؤ کے باعث انڈیا کی ایران سے تیل کی درآمد میں کمی آئی ہے اور ایسی ہی صورتحال بعض دیگر شعبوں میں بھی دکھائی دے رہی ہے، لیکن اس کے باوجوداب تک نہ تو انڈیا اور نہ ہی ایران کی جانب سے کوئی ایسا عندیہ یا اشارہ سامنے آیا تھا جس یہ ظاہر ہو کہ دونوں شراکت دار چاہبارزاہدان ریلوے ٹریک منصوبے سمیت کسی بھی اقتصادی وتجارتی معاہدے سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں، اب نئی صورتحال میں بعض تجزیہ کاریہ امکان بھی ظاہر کررہے ہیں کہ چین مزید دباؤ ڈال کربھارت کو چاہبار پورٹ پردی گئی سہولیات ختم یا محدود بھی کراسکتاہے، کیونکہ جس طرح ایران نے چین بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کے معاہدے کے بعد فوری طور پر واضح حمایت کا اعلان کیا ہے اور علاقائی وعالمی معاملات و تناز عات پر چینی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہوئے چین کے حریفوں یا دشمنوں کے ساتھ قربت بڑھا نے سے گریز اور ان سے فاصلہ بڑھا رہا ہے وہ اس امرکا عکا س ہیکہ ایران چین کی سامراجی گرفت میں مکمل طور پر آچکا ہے، لہٰذا آئندہ دنوں میں ایران بھارت تعلقات اور چاہبار سمیت مخالف دو طرفہ معاہدوں کی کامیابی اور جاری رہنے کا انحصار چین کی مرضی اور آنکھ کے اشاروں پر ہوگا۔

ایران کے علاوہ چین جنوبی ایشیاء میں بھی انڈیا کو تنہا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوا نظرآتا ہے، اس ضمن میں پاکستان پہلے ہی ہر لحاظ سے چین کے شانہ بشانہ ہے اور دونوں کے مابین بھارت کیخلاف مفاداتی یکسانیت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، دونوں کا لداخ پر ایک ہی موقف ہے اور بھارت سے جنگ کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کی دفاعی اور اقتصادی سمیت ہر قسم کی مدد کرنے کے پابند بتائے جاتے ہیں، پاکستان کے بعد چین اور انڈیا کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والا بھارتی ہمسایہ نیپال ہے، جس پر چین پہلے ہی اپنی گرفت مضبوط بنا چکا ہے، اور لداخ میں وادی گلوان پر چینی قبضے کے تنازعہ سے قبل نیپال اور انڈیا کی فوجی جھڑپیں بھی ہوئیں، اورنیپال نے ان علاقوں کو جن پر انڈیا کا دعویٰ رہا ہے اپنے علاقے قرار دیتے ہوئے نہ صرف ان پر قبضہ کیا بلکہ انہیں شامل کرکے ملک کا نیا نقشہ پارلیمنٹ سے منظور کر الیاہے، جس کے بعد نیپال اور بھارت کے درمیان جاری سرحدی وسیاسی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے، دوسری طرف چین بنگلہ دیش پر بھی ڈورے ڈال رہا ہے، اور حالیہ دنوں میں چین کی بنگلہ دیش سے دفاعی واقتصادی تعلقات بڑھانے کی سرگرمیاں نمایاں طور پر نظر آئیں، جبکہ برما اور سری لنکا کے ساتھ بندر گاہوں کی تعمیرسمیت مختلف شعبوں میں چین متعدد معاہدے اور بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے، چین کی یہ تمام ترپیش قدمی یقینی طور پر بھارت کیلئے کئی مسائل جنم دے گی، جس کے جواب میں انڈیا بھی خطے اور دنیا میں چین مخالف علاقائی وعالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنی صف بندی کر رہاہے، اس حوالے سے امریکہ سب سے آگے اور پر جوش نظر آتا ہے، جس کے ساتھ آسٹریلیا، جاپان اور برطانیہ بھی قدم ملاکر چل رہے ہیں، اپنے اس اتحاد کا مظاہرہ بھارت اور امریکہ کی بحرہند کے انڈیمان جزائر کے سمندر میں کی گئی مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی کیا گیاہے، جو چین ایران معاہدے کے سامنے آنے کے بعد کی گئی ہیں، کہا جاتا ہیکہ جس سمندری علاقے میں امریکہ انڈیا فوجی مشقیں کی گئی ہیں وہ تجارتی بحری جہازوں کا سب سے زیادہ مصروف علاقہ ہے، جس کے باعث ان مشقوں کوچین کے تجارتی راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی صلاحیت و طاقت دکھانے کے تناظرمیں دیکھا جارہا ہے، جو خطے میں ممکنہ ٹکراؤ یا جنگ کی تیاریوں کا حصہ قراردیا جاسکتا ہے۔

اس تمام تصادم خیزممکنہ پیش منظر کے خطے کے مختلف علاقوں پر منفی اثرات و نتائج کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو تجزیہ کار بلوچستان اور ساحل بلوچ کو علاقائی وعالمی سامراجی طاقتوں کی مفاداتی کشمکش کا سب سے بڑامرکز قرار دے رہے ہیں، ان حلقوں کے مطابق چاہبار اور گوادرخطے میں نئی سامراجی گریٹ گیم کا ایک ایسا اہم ترین اور فیصلہ کن مرکز ہیں کہ جس طاقت کا بلوچستان کی ان دو بڑی بندرگاہوں پر قبضہ ہوگا وہی اس سامراجی مفاداتی بڑے کھیل کا فاتح بنے گا، یہ کیفیت بلوچستان کو کھیل کا نتیجہ بدلنے کی صلاحیت اور حیثیت کا حامل ظاہر کرتی ہے، لیکن بلوچستان کی یہی فیصلہ کن حیثیت ہی موجود ہ کشیدہ صورتحال میں اس پر تباہ کن نتائج واثرات کا خدشہ ظاہر کر رہی ہے، اس سلسلے میں بعض مبصرین اور بلوچ قوم پر ست و دیگر سیاسی سماجی حلقوں کا کہنا ہیکہ بلوچستان کو اسی صورت میں سامراجی گریٹ گیم کے تباہ کن اثرات ونتائج سے محفوظ بنایا جا سکتا ہیکہ جب پاکستانی اور ایرانی حکمران چین سمیت کسی بھی سامراجی طاقت کے اس مفاداتی کھیل کا حصہ نہ بنیں، مگر ان حلقوں کے مطابق ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، جس کے باعث یہ فریضہ اب مشرقی و مغربی دونوں اطراف کے بلوچستان کے عوام اور بلوچ قوم پر عائد ہوتا ہیکہ وہ اپنی سرزمین اور اس کے ساحل اور و سائل کو علاقائی وعالمی طاقتوں کے سامراجی مفادات پر قربان ہونے سے محفوظ بنائیں۔

بظاہر مقبوضہ بلوچستان میں جاری آزادی کی جنگ سے ایسا لگتا ہے کہ بلوچ قوم اپنی سرزمین کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوجائے گی،مگر شرط یہ بھی ہے کہ ہندوستان چین کی سامراجی منصوبوں کو سمجھتے ہوئے ایک مظبوط بلاک قائم کرئے اور پاکستان میں بلوچ سمیت دیگر مظلوم اقوام بشمول پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کی آزادی کے لیے بھی انکا ساتھ دئے۔جغرافیائی ھوالے سے اہم اہمیت کا حامل مقبوضہ بلوچستان اس خطے کا گیم چینجر زمین ہے اور ہندوستان سمیت دیگر قوتوں کو سفارتی و دیگر حوالے بلوچ قوم کی مدد کرنا ناگزیر ہو گیا ہے،اگر چین کے خلاف ایک مظبوط بلاک نہیں بنایا گیا اور اس میں بلوچستان کو اسٹک ہولڈر نہیں لیا گیا تو ممکن ہے کہ چین اپنے سامراجی عناصر میں کامیاب ہو جائے جو اس خطے کے مہذب اقوام اور جمہوری ریاستوں کے لیے مشکلات کا سبب ہو گا۔
٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment