افغانستان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالغنی برادر نے افغان صنعتکاروں اور تاجروں سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی بجائے دیگر ممالک سے تجارت کے راستے تلاش کریں اور اگر کوئی تاجر اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کے لیے پھر افغان حکومت کسی قسم کی مدد نہیں کر سکے گی۔
یہ اعلان انھوں نے افغانستان میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کیا ہے اور یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور دونوں حالات بحال کرنے کے لیے دیگر ممالک جیسے ترکی اور قطر کی کوششیں جاری ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ہر قسم کی تجارت کے لیے 32 روز سے بند ہے اور اس وقت سرحد پر بڑی تعداد میں تجارتی سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں کھڑی ہیں۔
ملا برادر نے کہا کہ اب افغانستان پاکستان کے ساتھ تجارتی لین دین بند کرے گا اور تاجر برادری کو ہدایت دیں کہ وہ متبادل راستے تلاش کریں۔
ملا برادر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان کے ساتھ تجارت کا بڑا حصہ ادویات کی درآمد پر مشتمل ہے، اور پاکستانی ادویات درآمد کرنے والے تاجروں کو تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اپنے مالی معاملات مکمل کر لیں۔
تین ماہ بعد افغان وزارتِ خزانہ پاکستان سے ادویات کی درآمد پر نہ محصول لے گی اور نہ ہی اجازت دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ پاکستان سے درآمد کی جانے والی ادویات غیر مؤثر رہی ہیں۔
انھوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ کوئی بھی ملک انفرادی طور پر اپنی تمام ضروریات پوری نہیں کر سکتا اس لیے ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے بعض ممالک سے تجارت میں رکاوٹیں اور اقتصادی بندش اور سیاسی طور پر دباؤ کی وجہ سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
پاک-افغان مشترکہ چیمبر کے رہنما خان جان الکوزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس اجلاس میں شریک تھے اور اس میں انھوں نے کہا ہے کہ امارت اسلامی افغانستان کا مؤقف یہ تھا کہ پاک افغان سرحد سال میں اکثر بند کر دی جاتی ہے جس سے تاجروں کا نقصان ہو رہا ہے اور اس نقصان سے بچانے کے لیے انھوں نے تجویز دی ہے کہ تجارت کے متبادل راستے تلاش کریں جو مشکل ضرور ہوں گے لیکن ناممکن کچھ نہیں ہے۔
انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان سے تجارت میں آسانیاں ہیں، کم خرچ ہے اور مال وقت پر پہنچ جاتا ہے جیسے اگر لاہور سے ٹرک صبح کے وقت روانہ ہو تو شام تک جلال آباد میں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کے ساتھ اگر تجارت ہوگی تو اس میں مشکل یہ ہے کہ ایک تو اس پر خرچہ زیادہ آئے گا اور دوسرا اس میں وقت زیادہ لگ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کے چین کا سامان قازقستان کے راستے پہنچ رہا ہے لیکن اس میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے۔