بنوں: پولیس اہلکار کے اغوا کے بدلے طالبان کمانڈرکےوالد و بھتیجے یرغمال

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں میں ایک پولیس اہلکار کے اغوا کے واقعے کے بعد مقامی امن کمیٹی طالبان کے ایک کمانڈر کے والد اور بھتیجے کو اغوا کر کے ساتھ لے آئے ہیں۔

اور اب مقامی عمائدین عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ پولیس اہلکار کو بازیاب کرایا جا سکے۔

یہ واقعہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں تھانہ ہوید کی حدود میں پیش آیا ہے۔

بنوں کے ضلعی پولیس افسر سلیم عباس کلاچی کے مطابق کہ مقامی سطح پر عمائدین اور امن پسند لوگوں نے امن کمیٹیاں قائم کی ہیں تاکہ اپنے علاقے اور لوگوں کی حفاظت کر سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ تھانہ ہوید کے حدود میں قائم کمیٹی نے ایک پولیس اہلکار کے اغوا کے واقعے کے بعد ایک عسکریت پسند طالبان کمانڈر کے والد اور بھتیجے کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی قبائلی روایات کے مطابق کی گئی ہے تاکہ علاقے میں پولیس اہلکاروں اور دیگر افراد کے اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکا جا سکے۔

اس علاقے میں قائم امن کمیٹی کے سربراہ ملک خوب نواز ہیں۔ جب ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کے مطابق یہ واقعہ کچھ یوں پیش آیا تھا کہ دو روز پہلے ہوید بازار میں معمول کی زندگی رواں دواں تھی، لوگ خرید و فروخت کے لیے بازار آئے تھے۔

اس بازار میں قریبی دیہاتوں سے بھی لوگ آتے ہیں۔ پولیس کانسٹیبل شفیع اللہ بھی بازار میں موجود تھے کہ اتنے میں بڑی تعداد میں مسلح عسکریت پسند بازار میں آئے اور کانسٹیبل کو اسلحے کی نوک کر اغوا کرنا چاہا۔

اس موقع پر مسلح افراد نے بازار میں موجود لوگوں کو دھمکیاں دیں اور ڈرایا کہ کوئی قریب آیا تو اس کی خیر نہیں ہو گی۔

انھوں نے بتایا کہ مسلح افراد کانسٹیبل شفیع اللہ کو اغوا کر کے نا معلوم مقام کی جانب لے گئے۔

امن کمیٹی کے لوگوں کو جب اس کا علم ہوا تو مقامی پولیس اور سی ٹی ڈی کے حکام کو آگاہ کیا اوران کا عملہ بھی ساتھ ہو گیا ۔ انھوں نے بتایا کہ امن کمیٹی کے اس وقت 20 افراد مسلح ہو کر اغوا کاروں کے تعاقب میں گئے اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا تھا۔

پولیس اہلکار اس علاقے میں تختی خیل کی طرف اور امن کمیٹی کے لوگ سری درگے کی طرف گئے اور یہاں گھنے جنگل ہیں جہاں مسلح عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کی اطلاع تھی۔

ملک خوب نواز نے بتایا کہ امن کمیٹی کے لوگوں نے عسکریت پسندوں کے ایک کمانڈر کے والد اور بھتیجے کو ان کے گھر سے اٹھایا اور اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اب انھیں کہا ہے کہ اگر پولیس اہلکار کو کچھ ہوا تو ویسا ہی جواب انھیں دیا جائے گا۔

امن کمیٹی کے لوگوں نے رات 11 بجے سے رات دیر تین بجے تک علاقے میں سرچ آپریشن کیا اور عسکریت پسندوں کے ان راستوں پر ناکے لگائے جہاں سے وہ اکثر گزرتے ہیں۔

اس امن کمیٹی میں کوئی 3000 افراد شامل ہیں۔

ایسی اطلاعات ہیں اب علاقے میں قبائلی رہنما اور عمائدین طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ کانسٹیبل کو بازیاب کرایا جا سکے۔

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سرکاری ملازمین اور پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

گزشتہ سال 50 کے لگ بھگ سرکاری افراد کو اغوا کیا گیا تھا جبکہ اس سال اب تک ایک سو سے زیادہ افراد کو اغوا کیا جا چکا ہے جن میں کچھ بازیاب کرائے گئے ہیں اور کچھ اب تک شدت پسندوں کی تحویل میں ہیں۔

Share This Article