گوریلا جنگ اور ٹیکنالوجی سے ممکنہ بچاؤ | بہرام بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

گوریلا جنگ تاریخ میں ہمیشہ طاقتور دشمن کے خلاف مؤثر حکمتِ عملی رہی ہے۔ کمزور قوتیں گوریلا حکمت عملی اپناتے ہوئے طاقتور حریف کو ہرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ نپولین کی جنگوں سے لے کر ویتنام، الجزائر، عراق اور افغانستان تک گوریلا جنگ نے دشمن کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ جنگ کے انداز میں تبدیلی بھی آئی ہے جو جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ پہلے دشمن کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات زیادہ تر انسانی ذرائع پر منحصر تھیں یعنی کارروائی کے بعد مقامی مخبروں سے پوچھ گچھ کی جاتی کہ حملے سے پہلے کون آیا، کہاں کا رہنے والا تھا اور اس کا چہرہ کیسا تھا وغیرہ۔ یہ ذرائع ایک زمانے میں کافی تھے مگر اب دشمن کئی تکنیکی ذرائع سے معلومات اکٹھی کر لیتا ہے۔ ذیل میں چند مخصوص ٹیکنالوجی ذرائع ہیں جن سے دشمن اپنی تحقیقات مکمل کرتا ہے۔

1۔ فنگر پرنٹس اور جسمانی شواہد

جب کسی جگہ خودکش حملہ یا گوریلا کاروائی ہوتا ہے تو جائے وقوعہ سے ملنے والے جسمانی شواہد جیسے فنگر پرنٹس، خالی گولیاں یا دیگر نمونہ جات — نادرا یا متعلقہ ڈیٹا بیس سے میچ کیے جاتے ہیں۔ اس سے حملہ آور کی شناخت، رہائش اور خاندانی پس منظر معلوم کیا جاتا ہے۔ تھوک یا دیگر حیاتیاتی نمونوں سے بھی شناخت نکالی جا سکتی ہے۔

2۔جیو فینسنگ

جیو فینسنگ کا مطلب مخصوص مقام کے گرد ایک مجازی باڑ کھینچنا ہے مثلاً حملے کی جگہ کے اطراف 100 سے 500 میٹر تک کا فینس بنایا جاتا ہے۔ اس فینس کے اندر آنے والے تمام BTS کوڈز اور سم نمبرز اگر وہ باڑ کے اندر کسی ٹاور سے منسلک ہوں تو “فینس میں موجود” شمار کیے جاتے ہیں۔ متعلقہ ٹاورز سے عام طور پر ایک مہینے سے پندرہ دن پہلے سے لے کر دھماکے کے دو گھنٹے بعد تک کا کال ریکارڈ نکالا جاتا ہے۔

3۔سی سی ٹی وی فوٹیج اور ویڈیو

سی سی ٹی وی کیمرے محض ویڈیو ریکارڈ نہیں کرتے بلکہ ان سے چہرہے کا شناخت، جسمانی ساخت، قد، رنگ، چلنے کا انداز، کپڑوں کا رنگ، ساتھ لائے گئے سامان یا ہتھیار اور وقت و تاریخ جیسی اہم معلومات نکالی جا سکتی ہیں۔ سیکیورٹی ایجنسیاں ملحقہ کیمروں کی فوٹیج کا تجزیہ کر کے مطلوب افراد کی نقل و حرکت معلوم کر لیتی ہیں۔

4۔آپٹیکل کریکٹر ریکگنیشن

او سی آر وہ ٹیکنالوجی ہے جو تصویر یا اسکین شدہ دستاویز سے حروف اور اعداد پہچان کر انہیں قابلِ تدوین متن میں تبدیل کرتی ہے۔ حملوں میں استعمال ہونے والی گاڑی یا موٹر سائیکل کے نمبر یا انجن نمبر کو OCR کے ذریعے پڑھ کر سرکاری ڈیٹا بیس سے ملاپ کر کے مالک، چالان اور ٹیکس ریکارڈ چیک کیے جاتے ہیں۔

5۔بینک ٹرانزیکشنز

گوریلا کارروائیوں میں رقم بینکوں کے ذریعے بھیجی جائے تو اس کا ریکارڈ بینکوں کے پاس رہتا ہے۔ حملے کے بعد بینک ٹرانزیکشنز اور نمبروں کے ٹریس سے مالی ذرائع معلوم کیے جا سکتے ہیں۔

6۔ بچاؤ

لہذا تمام گوریلا جہدکاروں کو چاہیے کہ دشمن کی ٹیکنالوجی سے بچنے کے لیے اپنی کمزوریوں سے سبق سیکھیں اور وہی عمل بار بار نہ دہرائیں۔ چند حفاظتی اقدامات یہ ہیں:

1۔کارروائی کے دوران فنگر پرنٹس سے بچنے کے لیے دستانے پہنیں اور جگہ پر کوئی نشانات یا تھوک وغیرہ نہ چھوڑیں۔

2۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے بچنے کے لیے عام لوگوں جیسا لباس اختیار کریں، ماسک اور کالے عینک پہنیں۔ گاڑی یا موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ جعلی کریں اور بار بار ریکی سے پرہیز کریں۔ ممکن ہو تو کارروائیاں رات کے وقت کریں اور جائے وقوعہ پر ذاتی موبائل یا دیگر قابلِ شناخت اشیاء ساتھ نہ رکھیں۔

3۔موبائل اور سم استعمال میں احتیاط رکھیں: ون-ٹائم سم استعمال کریں جو کسی کے نام پر رجسٹر نہ ہو؛ اپنی CNIC سے سم لنک نہ کریں ، ذاتی نمبر پر کال یا میسج نہ کریں؛ جہاں ممکن ہو IMEI تبدیل کریں اور انکرپٹڈ یا کوڈڈ میسجز استعمال کریں اور وائس پرنٹس وغیرہ سے بچیں۔ مختلف نیٹ ورکس کے درمیان پیغام بھیج کر سم یا موبائل بند کر دیں۔ کال اٹینڈ نہ کرنے کی صورت میں کال ٹائم یا ریئل لوکیشن کا ریکارڈ بننے کا امکان کم ہوتا ہے اس لیے اکثر اوقات صرف مس کال کے ذریعے پیغام دیا جاتا ہے۔

نتیجہ

خیال رہے کہ جنگ کا منظرنامہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے تبدیل ہو چکا ہے۔ گوریلا حکمت عملی ہمیشہ مؤثر رہی ہے مگر آج کے دور میں دشمن کی تکنیکی مہارتوں کو نظرانداز کرنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ جہدکار اپنی کارروائیوں میں ٹیکنیکل خطرات کو سمجھیں، ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور منظم طور پر حفاظتی اقدامات اختیار کریں تاکہ دشمن کے ڈیجیٹل اور فزیکل تفتیشی ذرائع ناکام رہیں۔

نوٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ادارے کا ان سے اتفاق کرناضروری نہیں ہے۔

٭٭٭

Share This Article