کراچی اسٹاک مارکیٹ پہ بی ایل اے کے حملے کی مخالفت و مذمت کرنا حیربیار مری کی جانب سے پہلا مذمتی و مخالفت والا بیان نہیں، بلکہ اس سے قبل بھی بلوچستان میں بی ایل اے کی جانب سے پاکستانی و چینی مفادات پہ حملوں کی حیربیار مری نے اسی طرح اور ان ہی الفاظ میں مذمت و مخالفت کی جس طرح پاکستان فوج کے نشریاتی ادارے آئی ایس پی آر نے کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حیربیار مری اور اس کے چند ہم خیال دوست کیونکر اور کن بنیادی وجوہات کی بناءپر بلوچستان میں چینی و پاکستانی مفادات پہ حملوں کی بڑے زور و شور سے مخالفت کرتے ہیں؟
آج کے صورتحال کو واضح کرنے اور بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے ہمیں آج سے بارہ سال قبل کے واقعات کو باریک بینی سے دیکھنا ہوگا، کیونکہ برطانیہ میں سال دو ہزار سات میں گرفتاری کے بعد اچانک تین مسلح گروپس بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے کی جانب سے بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔
اب لازم یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ حیربیار مری کے برطانیہ میں گرفتاری اور بلوچستان میں تین مسلح گروپس کے جنگ بندی کا کیا تعلق بنتا ہے تو اس حوالے سے مزید وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے حیربیار مری کا مشترکہ جنگی کمان، ایک وقت میں حیربیار مری کو تینوں مسلح گروپس اپنا کمان تسلیم کرتے، اس لئے جب برطانیہ میں گرفتاری کے وقت کیس میں پیچیدگیاں اور اوپر سے پاکستانی دباو¿ میں اضافہ ہوا تو ا±سی دوران پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے حیربیارمری سے ایک ملاقات لندن میں کی، (جس کی تصدیق خود حیربیار مری کرتے ہے) ملاقات میں کیا معاملات طے پائے،؟کن امور پہ بات چیت ہوئی؟ لیکن ایک بات انتہائی قابل غور ہے کہ رحمان ملک سے ملاقات کے بعد ایک طرف جہاں بلوچستان میں تین مسلح گروپس نے جنگ بندی کا اعلان کیا وہی پاکستان نے حیربیار مری پہ لگائے اپنے الزامات کو واپس لے لیا۔
اس لئے آج کل بلوچستان میں اور بالخصوص آزادی پسند حلقوں میں یہ مطالبہ روز بروز زور شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ لندن میں دو ہزار آٹھ کو حیربیار مری اور پاکستانی وزیر داخلہ کے درمیان معاہدے کی تفصیلات سامنے لایا جائے لیکن اس حوالے سے حیربیارمری اور اس کے یورپ میں موجود کچھ ہم خیال دوستوں کی جانب سے کوئی بھی قابل ذکر یا قابل قبول جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
اگر حیربیارمری کے لندن میں گرفتاری، رحمان ملک سے ملاقات و معاہدہ اور رہائی کے بعد کے واقعات کی تسلسل کو کڑی بہ کڑی ملایا جائے تو انسان کے ذہن میں درجنوں نہ بلکہ سینکڑوں ایسے سوالات جنم لیتے ہیں۔
رہائی کے فوری بعد پانچویں جنگ آزادی کے رہبر و بانی نواب خیر بخش مری کے خلاف محاذ کھولنا، اپنے جھوٹے بھائی مہران مری پر کرپشن کے بے بنیاد الزامات لگانا، براہمداغ بگٹی کے بارے غلط فہمیاں پیدا کرنا، ڈاکٹر اللہ نظر اور اس کے تنظیم سے اچانک روابط ختم کرنا، جاوید مینگل کے خلاف اندرون خانہ یہ ابہام پھیلانا کہ وہ پاکستان کے ساتھ سودہ بازی کرچکا ہے، جبکہ آگے چل کر استاد اسلم بلوچ کے خلاف محاذ کھولنا، لیکن سابقہ تمام اپنے عزائم میں حیربیار مری تسلسل کے ساتھ کامیاب ہوتا رہا لیکن جس وقت اس نے استاد اسلم بلوچ کے خلاف محاذ کھولا اسی دن حیربیار مری زوال کی گہرائی میں جاگرا اور ایک قومی لیڈر سے اب فیس بک کے ایک پیج تک محددو ہوگیا جہاں پہ ہر وقت اپنی سابقہ کارکردگی کو دہرا کر خود کو خوش کرنے میں مگن ہے۔
کیا واقعی حیربیارمری اصولی طور پر بی ایل اے کے کارروائیوں کی مذمت کررہا ہے یا صرف ضد و انا کی آگ میں مبتلا ہوکر ایسا کررہا ہے، اگر غور کیا جائے تو جب کوئٹہ میں ستائیس اپریل دو ہزار دس کو بی ایل اے نے بلوچستان یونیورسٹی کے خاتون پروفیسر ناظمہ طالب کو ہلاک کردیا جس کے مختلف حلقوں کی جانب سے ایک عام شہری اور بالخصوص ایک خاتون کی ہلاکت پہ تنقید کا سلسلہ جاری ہوا تو حیربیار مری نے اپنے نام سے ایک کالم لکھ کر ناظمہ طالب کے بی ایل اے کے ہاتھوں ہلاکت کا بھرپور دفاع کیا، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے حالیہ وقتوں میں تسلسل کے ساتھ کیونکر حیربیار مری اور اس کے سوشل میڈیا پہ چند ہمدرد وں کی موقف اور پاکستانیوں کے بلوچ جہد آزادی کے حوالے موقف میں یکسانیت پیدا ہوا ہے؟
اس کی بنیادی وجہ حیربیارمری کے کاروباری عزائم کی ناکامی شامل ہے، کیونکہ ایک طویل عرصے یعنی دو ہزار چار سے لیکر دو ہزار سترہ تک حیربیارمری نے بلوچ قومی جہد آزادی کے مالی وسائل اور کمک میں بڑے پیمانے پر غبن کی ہے، دو ہزار سترہ میں ملنے والے معلومات، شواہد اور دستایزات کے مطابق حیربیارمری کے پاس مختلف جگہوں سے ماہانہ بارہ کروڑ سے زائد جمع ہوتے تھے، اور ان بارہ کروڑ میں بلوچستان، بلوچ تحریک پہ ماہانہ صرف اور صرف ڈھائی کروڑ خرچ ہوتے تھے، باقی پیسے کہاں گئے؟ کیسے خرچ ہوئیں؟ اس کا حساب کتاب حیربیار مری نے نہ نواب خیربخش مری کو فراہم کی نہ استاد اسلم کے وقت جب اس بارے معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا تو بجائے اس مالی بدعنوانی کا حساب دے دیتا الٹا استاد اسلم بلوچ اور بشیرزیب کے خلاف منفی حربوں کا سلسلہ شروع کیا جس کا انجام حیربیار مری کے ہاتھ سے بی ایل اے کا کمان نکلنے کی صورت میں ہوا، اور اب میڈیا میں حیربیار مری جو کچھ بھی کررہا ہے وہ صرف اور صرف ہوائی باتیں اور خالی خولی دعویں ہیں جن کا زمینی حقائق سے دور دور کا تعلق نہیں۔
بعض حلقے تاحال اس امر سے شاید واقف نہیں کہ حیربیارمری نے کیونکر استاد اسلم کے خلاف یہ بیان جاری کہ وہ ہندوستان علاج کیلئے گیا، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان شروع دن سے بلوچ تحریک کو بھارت کی پروکسی قرار دے رہا ہے لیکن حیربیار نے بیک وقت ایک تیز سے دو شکار کرکے ہندوستان و افغانستان کو بلوچوں کی ہمدردی رکھنے سے دور کرنے کی ناکام کوشش کی۔
اس کے علاوہ گذشتہ طویل عرصے سے بلوچوں حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ حیربیارمری لندن میں پاکستانی خفیہ اداروں کے اہم کارندے پیرگیلانی کے ساتھ اپنے کاروباری شراکت کی وضاحت کریں کہ کن وجوہات کی بنیادپہ ”بولان لمیٹڈ“ کے نام سے وہ پیرگیلانی کے ساتھ کاروبار کررہا ہے جبکہ دوسری طرف پیرگیلانی بلوچستان میں لشکر طیبہ کے اہم کارندے شفیق مینگل کے ہمراہ مل کر بلوچ تحریک کے خلاف سرگرم عمل ہے اور بلوچستان کے شہر حب کے جام کالونی میں باقاعدہ ایک ٹارچر سیل بنایا ہے جہاں وہ لاپتہ بلوچوں پہ پاکستان آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر انسانیت سوز تشدد کرتے ہے۔
ایک اور قابل ذکر امر یہاں بیان کرنا ضروری ہے کہ حیربیار مری کی جانب سے حالیہ کچھ عرصے سے بلوچ تحریک سے وابستہ تنظیموں کو ایران کی پروکسی قرار دینے کی شرمناک کوششوں میں لگا ہوا ہے حالانکہ شوائد و ثبوب موجود ہے کہ لندن و متحدہ عرب امارات میں ایرانی حکام سے بات چیت کے بعد حیربیار مری نے بلوچستان سے ایک وفد ایران بھیجا تھا۔
اس لئے اب ضروری ہوچکا ہے خود بلوچ قوم اور بلوچ قوم کے ہمدرد حیربیار مری کے ودغلے چہرے اور دوغلے پالیسیوں کو سمجھ کر ان سے خود کو دور رکھیں۔
( اس مضمون میںرائے مضمون نگار کے ذاتی ہیں، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ،ادارہ)