کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ بدستور جاری ہے جو جمعہ کو اپنے 39ویں دن میں داخل ہوگیا۔ یہ احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب کے باہر لگایا گیا ہے۔
لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے ہر فورم پر رجوع کیا۔ عدالت میں مقدمہ دائر ہے جبکہ مقامی تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی، مگر اس کے باوجود زاہد کی گرفتاری ظاہر نہیں کی جارہی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان کے بیٹے پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور شفاف عدالتی کارروائی کی جائے، لیکن خفیہ اور ماورائے آئین اقدامات کسی طور قابلِ قبول نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زاہد علی بلوچ ایک بے قصور نوجوان ہے جو اپنے پورے گھر کی کفالت کر رہا تھا، مگر ریاستی اداروں نے اسے جبری طور پر لاپتہ کرکے خاندان کو شدید اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے درجنوں بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ ان میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے کے رہائشی نوجوان شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔
کارکنوں کے مطابق یہ تمام نوجوان متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی گمشدگی نے اہل خانہ کو شدید ذہنی اور جسمانی کرب میں مبتلا کردیا ہے۔
مظاہرین اور انسانی حقوق کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ آئین پاکستان میں دیے گئے بنیادی شہری حقوق کی بھی صریح نفی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین ہر شہری کو گرفتاری کی صورت میں عدالت میں پیش کرنے اور شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، لیکن جبری گمشدگی کے ذریعے یہ حق غصب کیا جا رہا ہے۔
مظاہرین نے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں کے اس سلسلے کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے بغیر نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے دکھ کم نہیں ہوں گے بلکہ یہ مسئلہ قومی سطح پر بھی مزید سنگین ہوتا جائے گا۔