نیپال میں جنریشن زی تحریک کی پر تشدد مظاہروں سے وزیر اعظم کے اقتدار سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی دارلحکومت کھٹمنڈو سمیت ملک کے مختلف حصوں میں اہم ریاستی ڈھانچے منگل کی شام سے مطاہرین کے حملوں کی زد میں ہیں۔
منگل کو مشتعل ہجوم نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں واقع پارلیمنٹ اور سپریم سمیت کی عمارت کو نذر آتش کیا۔ اس کے سیاہ دھوئیں کو دور سے بھی آسمان میں دیکھا جا سکتا تھا۔
ملک بھر میں سپرمارکیٹس ،سرکاری عمارتوں اور سیاستدانوں کے گھروں پر حملے کیے گئے اور انہیں نذر آتش کرکے لوٹ مار کی گئی۔
منگل کو تین ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ جیل حکام کے مطابق اس افراتفری میں مغربی اضلاع کی دو جیلوں سے 900 قیدی فرار ہوگئے ہیں۔
جنریشن زی تحریک کے بعد ملک کے صدر اور آرمی چیف نے مظاہرین سے باضابطہ طور پر بات چیت کا مطالبہ کر دیا اور سکیورٹی آلات اور سول انتظامیہ کے سربراہوں نے بھی ایسی ہی اپیلیں کی ہیں۔لیکن پرتشددمظاہرے نہیں رکے۔
منگل کی شب نیپال کے آرمی چیف نے بیان جاری کیا جس میں مظاہرین پر موجودہ بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار اور آتشزنی کا الزام لگایا ہے۔
نیپالی فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگدل نے ایک ویڈیو پیغام میں مظاہرین کو بات چیت کی دعوت دی ہے تاکہ ملک میں موجودہ سیاسی بحران سے نکلا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج قومی اتحاد اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بدامنی جاری رہی تو ‘تمام سکیورٹی ادارے بشمول نیپال کی فوج صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے پُرعزم ہے۔’ اس حوالے سے رات 10 بجے کی ڈیڈلائن دی گئی ہے تاہم یہ تفصیلات نہیں دی گئیں کہ اس کے ردعمل میں کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کا ماننا ہے کہ یہ جین زی احتجاج میں گولی مارنے پر غصے کا نتیجہ تھا۔
وہ کہتی ہیں، "معاشرے میں غلط عناصر بھی ہیں، ہو سکتا ہے وہ گھس آئے ہوں، اور ان کے مقصد میں سنگھا دربار اور سپریم کورٹ سمیت عمارتوں کو آگ لگائی گئی ہے۔ لیکن اصل بات اس واقعے کا اثر ہے جس میں غیر مسلح افراد مارے گئے تھے۔”
ماہر امراض چشم ڈاکٹر سندوک رویت، جن کا بعض نوجوانوں نے احترام کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک کے اہم مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ نئی حکومت کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور ہمیں اس طرف آگے بڑھنا چاہیے۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مظاہرین کو پرسکون رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا، "اب ہمیں نئے خیالات کے ساتھ حکومت بنانا چاہیے اور اس طریقے سے آگے بڑھنا چاہیے جس کی ہر کوئی حمایت کرے۔ آئیے ہم فزیکل انفراسٹرکچر کو جلانے، گرانے یا نقصان نہ پہنچانے دیں۔”
نیپالی فوج کے چیف آف آرمی سٹاف نے منگل کی رات اپنے خطاب میں لوگوں پر زور دیا کہ وہ ایجی ٹیشن معطل کر کے مذاکرات میں شامل ہوں۔
اس سے قبل صدر رام چندر پوڈیل نے بھی جین زی کے نمائندوں سے بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرنے کی اپیل کی تھی۔
کٹھمنڈو کے میئربالن شاہ نے مظاہرین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے، سیکورٹی چیفس اور چیف سکریٹری سے اپیل کی۔
انہوں نے کہا، "میں تمام جماعتوں سے تحمل سے کام لینے اور بات چیت میں شامل ہونے کی اپیل کرتا ہوں، کیونکہ جمہوریت میں شہریوں کی طرف سے اٹھائے گئے مطالبات کو بات چیت اور بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، بشمول جنرل جی کے نمائندوں کے ساتھ۔”
آئین میں کہا گیا ہے کہ ایوان نمائندگان کا رکن حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ تاہم ماہر سیاسیات پروفیسر کرشنا کھنال کا کہنا ہے کہ ذمہ داری ایسے شخص کو دی جا سکتی ہے جس پر سماج کا بھروسہ ہو اور جو ‘جنرل جی’ نسل کی توقعات پر پورا اترے۔
"اس لیے، ہمیں خود کو آئین کی تکنیکی دفعات کے اندر حل تلاش کرنے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے،” وہ کہتے ہیں۔ "ہمیں ایک وسیع اور زیادہ کھلے انداز میں آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ یہ ایک منفرد صورتحال ہے، ایک بحران ہے۔”
ملک کے مختلف حصوں میں اہم عمارتوں پر آتش زنی کے حملوں پر بڑے پیمانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی نے کہا ہے کہ نیپالی فوج کو اب ایسے ڈھانچے کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں، "مجھے لگتا ہے کہ فوج کو باہر آنا چاہیے اور سیکیورٹی فراہم کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔”
بتایا جا رہا ہے کہ نیپال کی فوج نے شام سے ہی اپنے فوجیوں کو ان ڈھانچوں کی حفاظت کے لیے تعینات کر رکھا ہے جن میں دن کے وقت آگ لگ گئی تھی۔
نیپال کی فوج کی طرف سے جاری کردہ نوٹس میں، اس نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں، یہ کہتے ہوئے کہ کچھ گروہ مشکل صورتحال کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار، آتش زنی اور نقصان پہنچانے کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم آپ کو مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اس طرح کی سرگرمیاں بند نہیں کی گئیں تو، فوج سمیت تمام سیکورٹی ایجنسیاں منگل کی رات 10 بجے سے نیپال اور نیپالیوں کی حفاظت کے لیے حالات پر قابو پانے کی اپنی بنیادی ذمہ داری پر قائم رہیں گی۔”
نیپال میں جاری بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں اب تک کم از کم 21سے زائد افراد کی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ وزیر اعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہو چکے ہیں۔
ملک میں دہائیوں بعد اس قدر بدامنی دیکھی گئی ہے مگر اب بھی عوامی سطح پر حکومت کے خلاف غصہ پایا جا رہا ہے۔