نوٹ : یہ تحریر ڈاکٹر جلال بلوچ کی کتاب ” پالیٹیکل منیجمنٹ ” کی بازگشت میں بطور پیش لفظ لکھی گئی ہے ۔(ق، د،م، ر)
ہم ایک عہد جدید میں داخل ہوئے ہیں ، لوگوں کے رہن سہن سمیت سوچنے کے انداز میں بھی واضح تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ وہ اقدار و اطور جنہیں ہم بلوچ تہذیب و ثقافت کا ٹھوس حصہ سمجھتے تھے برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔ ایسا اب مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے کہ ہم اپنے طرز کھن پر اٹے رہے ہیں اور عوام کو بھی اس بات پر قائل کریں کہ ہمارے فرسودہ روایات الہامی ہیں جن میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں اور اگر تبدیلی کی کوشش یا تبدیلی ہوئی تو ہمارا شیرازہ بکھر جائے گا ۔ کسی بھی معاشرے پر جمود معاشرے کی قوت متحرکہ کی سہل پسندی کی وجہ سے طاری ہوتا ہے ہمارا مسئلہ سماجی جمود نہیں بلکہ ہم سماجی تعغیرات سے منہ موڑ کر اپنی چھوٹی سی دنیا میں قید ہوکر رہ گئے ہیں ۔
ہمارا دعوی بلوچستان کی آزادی کا ہے لیکن ہم اپنی سرمین کی ڈیموگرافی اور قومی اجزائے ترکیبی میں ہونے والے شکست و ریخت سے انجان ہیں یا پھر کسی غیرمرئی طاقت یا قدرتی موقع کی تلاش میں ہیں۔ ہم انقلابی کی بجائے عقیدہ پسند بن چکے ہیں ہمارا لٹریچر اور ہمارے سیاسی بیانات رومان پرور الفاظ کا بھنڈار ہیں جو ہمارے کارکنان کو حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے درست حکمت عملی مہیا کرنے کی بجائے تھپکی دے کر سلانے کا کام کررہے ہیں۔
رسوم و وروایات ایک مرحلے پر ایک خاص ذہنی کیفیت میں ، سن بلوغ کے عین ابتدائی مراحل میں ہماری سوچ کو تحریک دینے کا سبب ضرور بنتے ہیں ۔ جس طرح اسکول،سرکاری دفاتر، فوج اور مذہبی لوگوں کا ایک خاص ڈریس کوڈ ہوتا ہے جو ان میں ہم آھنگی کا باعث بنتے ہیں ہماری تربیت میں بھی کچھ اس طرح کے عناصر کا ہونا لازمی ہے تاکہ ہم اپنے سیاسی کیڈر کو یکساں تربیت فراہم کرسکیں ۔ یکساں تربیت کا ہونا کسی بھی تنظیمی وحدت کے لیے انتہائی اہم ہے یہ ’’ مشینی طرز ‘‘ کا کام ہے جس کے کل پرزے الگ الگ رہ کر اس پھیلے ہوئے کام کو مرکزیت میں ڈھال کر انجام دیتے ہیں ’’ یہی سیاسی تنظیم کاری ‘‘ کا بنیادی اصول بھی ہے جسے اب پولیٹکل منیجمنٹ کے نام سے علمی مباحث و مطالعے کے لیے باقی موضوعات سے الگ کیا گیا ہے ۔
پولیٹکل منیجمنٹ اور مذہبی غلبہ
اس کی اہمیت کی بجائے اس کے نتائج غورطلب ہیں ،مثال کے طور پر مذہبی تحریکوں اور مذہبی مبلغین کے طریقہ ابلاغ کا مشاہدہ کریں ۔ چودھویں صدی کے اوائل میں روم کے عیسائی چرچ کے توسط مشنری مبلغین کو ایک تنظیم کے تحت دنیا بھر میں پھیلانے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک میں جہاں کی ثقافت اور مذہبی رجحانات بھی عیسائیت سے میل نہیں کھاتے تھے وہاں کے لوگوں نے اپنے اسلاف کے مذہب اور رسومات سے بغاوت کرکے عیسائیت قبول کیا ۔ قبل ازیں عیسائی مبلغین عدم مرکزیت کا شکار تھے تو خود شہنشاہیت روم میں بھی ’’ چرچ ‘‘ کے اثرات محدود رہے ۔ ہندوستان اور مصر میں سنی مذہبی عناصر نے عالمگیر تحاریک منظم کرنے میں بھی انہی بنیادوں پر کامیابی حاصل کی جس کو ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں ہمارے قومی اور سیاسی مفادات کے لیے زہرقاتل ہونے کے باوجود مذہبی تنظیموں کو پذیرائی مل رہی ہے جو اپنے کیڈرز کو نامحسوس طریقے سے انتہائی پسندی اور جہاد کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ان کے پاس ذہن سازی کے لیے ہمہ جہت اوزار ہیں جن کو وہ اپنے بنیادی ہدف کے لیے استعمال کررہے ہیں ۔ انہوں نے مستقل مزاجی اور وسائل کے بھرپور استعمال سے اجتماعی برین واشنگ کی ایک وسیع انسانی فیکڑی تشکیل دی ہے جو سماج کی ترقی کی راہیں مسدود کرکے لوگوں کو ایک دائرے میں قید کیے ہوئے ہیں ۔ نظرانداز کرنے یا طاقت کے استعمال سے ہم ان انقلاب دشمن عناصر کا قلع قمع نہیں کرسکتے لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کو پنپنے سے روک کر سماج سے ان برائیوں کا خاتمہ کیا جائے جو ان کے توسط جنم لے رہی ہیں۔
جس طرح کسی زمین پر کاشت سے پہلے اس سے جھاڑ جھنکار اُکھاڑے جاتے ہیں، فصل پر تیاری کے مراحل میں کیڑے مار اسپرے کیے جاتے ہیں عین مین انقلاب کے لیے زمین کو تیار کیا جاتا ہے ۔ اس رائے سے ہمیں چمٹنے کی بجائے بحث کی گنجائش پیدا کرنے چاہئے کہ ’’ ہمارے تمام مصائب اور پسماندگی کی جڑ قومی غلامی ہے اور قومی غلامی کے خاتمے کے ساتھ تمام مشکلات کا یکدم خاتمہ ہوگا۔‘‘ ایسا عموما نہیں ہوتا بلکہ ایسے عناصر اگر خوابیدہ یا متحرک صورت میں انقلاب کی زمین پر موجود ہوں تو انقلاب یا سماج کی آزادی پر ہر وقت خطرہ منڈلاتا رہے گا۔
قومی مفادات کے خلاف مذہب کابطور ہتھیاراستعمال
ہماری زمین پر مذہب ہمارے قومی مفادات کے خلاف ایک جدید ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے قبل ازیں قبائلیت ایک طاقتور شکل میں قومی وسائل کو ہڑپ کرکے سماجی ترقی کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ چوں کہ اس طرح کے عناصر کے مفادات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے ان تمام انقلاب دشمن عناصر کےدرمیان ایک باقاعدہ یا بے قاعدہ اتحاد بھی موجود ہے ۔ قبضہ گیر اور سامراجی طاقتیں بھی ان کو ایک ہی نکیل میں پروکر ایک ہی سمت میں دھکیلتی ہیں الغرض تمام سماج دشمن عناصر کی تشخیص اور ان کے خلاف دفاعی حکمت عملی کا ہونا ضروری ہے۔
اگر ہم ان کی تشخیص میں ناکام رہے تو یہ ایسا ہی ہوگا کہ ہم قومی غلامی کی بیج بونے والے ، قومی غلامی کی درخت کو کھاد ، پانی اور روشنی مہیا کرنے والے عناصر سے غفلت برت کر سارا زور قومی غلامی کی جڑ تلاش کرنے میں لگائیں ۔ قومی غلامی کی جڑ اگر آسانی سے کاٹی جاسکے تو ہمیں ایسا ہی کرنا چاہئے لیکن قومی غلامی کے اسباب ہی اس کے گرد حلقہ بناکر اسے تحفظ دیئے ہوئے ہیں جب تک ان اسباب کا سدباب نہ ہو قومی غلامی کی جڑ کاٹی نہیں جاسکتی۔ یہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ آج قومی آزادی کی تحریک کے خلاف یہی عناصر دشمن کے اگلے مورچے سنبھالے ہوئے ہیں ۔ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے گلے میں ایک ایسی ہڈی پھنسی ہوئی ہے کہ جس کا نگلنا بھی مشکل ہورہا ہے اور اگلنا بھی جان جوکھم کا کام ہے ۔
ہم نے تذکرہ کیا کہ دشمن ہماری اپنی سماجی برائیوں اور کمزوریوں کو تلاش کرکے ہمارے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے ۔ ایرانی انقلاب کے اکتالیسیویں سالگرہ کے موقع پر مغربی بلوچستان میں ان کے ایک ضلعی سطح کے عہدیدار نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ ’’ دشمن محرومیوں کی گرد میں ہم پر وار کرتا ہے ۔ ان کی تمام ترکوشش ہے کہ محرومیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تلاش کیا جائے اور انہیں ہمارے خلاف استعمال کیا جائے وہ محرومیاں جس کا ایک حصہ ہماری غلفت اور دوسرا بڑا حصہ سامراج کی وراثت ہے ۔ ‘‘
سیاسی تنظیموں میں ادارہ جاتی ڈھانچے کا فقدان
اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جب آپ کی اپنی قوت آپ کے خلاف استعمال ہو تو آپ اس کے خلاف سخت اقدام اُٹھاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں جس سے وہ روزبروز طاقتور ہوتا جاتا ہے لہذا اس سے نمٹنے کا درست طریقہ یہی ہے کہ ان کمزوریوں کو تلاش کرکے دور کرنے کی سعی کی جائے ۔ ایسا تب ہی ممکن ہے کہ پارٹیاں شخصیات کے زیر اثر نہ ہوں بلکہ ادارہ جاتی بنیادوں پر استوار ہوں ۔ ہمارے پاس کاغذوں میں ادارہ جاتی ساخت بڑی خوبصورت نظر آتی ہے فی الواقع کاغذوں میں یہ خاکہ مثالی ہے لیکن کیا شہد شہد کی تکرار کرنے سے منہ میٹھا ہوتا ہے یا شہد کھانے سے ہی شیرین ذائقے کا احساس ہوتا ہے ؟ ہم یہی سے چوک کر جاتے ہیں کہ کاغذوں میں ہم بڑے خوبصورت منصوبے بناتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو اس پر ایک فیصد بھی عمل نہیں کیا جاتا ۔
میں دعوے سے کہتا ہوں بی این ایم اور بی ایس او کی تشکیل سے لے کر آج تک کبھی ہمارے سیاسی ادارے ہمارے آئین کے مطابق فعال نہیں رہے ۔ بعض علاقوں میں تو دہائیاں گزر گئیں آرگنائزنگ باڈی سے بات آگے بڑھی ہی نہیں ، سیاسی تربیت کی طرف ہمارے سیاسی نخبگان (Political Elites ) کی نظر جاتی ہی نہیں یا ان کے پاس جو ادراکی دوربین ہیں وہ اس قدر غبارآلود ہیں کہ انہیں کیڈرز میں سیاسی تربیت کا فقدان نظر ہی نہیں آتا ؟ وہ کون سے عناصر ہیں جو ہمارے منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے ہمارے سامنے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ؟
سیاسی تنظیم کی کوئی ٹھوس شکل نہیں ہوتی جیسا کہ کسی عمارت کی ہوتی ہے لیکن اس کی ایک شکل موجود بھی ہوتی ہے اور اپنی موجودگی کا اظہار بھی کررہی ہوتی ہے۔ یہ عمارت اینٹ گاڑھے سے نہیں انسانی سروں سے تشکیل پاتی ہےاس لیے اس کی تمام تر شکوہ و شان اور مضبوطی ان سروں پر منحصر ہے ۔ جس طرح مارکیٹ میں جعلی پراڈکٹس معیاری پروڈکٹس کے نام اور پیکنگ کے ساتھ دستیاب ہیں اور یہ اصل کے اتنے ہوبہو ہوتے ہیں کہ پہنچاننا بھی مشکل ہوتا ہے اسی طرح جعلی جماعتیں بھی ہیں جن میں بظاہر تمام جماعتیں اوصاف موجود ہوتے ہیں۔ ادارہ جاتی ڈھانچے ہوتے ہیں لیکن سیاسی مرکزیت کا کنٹرول پارٹی کی بجائے کسی خاص شخصیت یا چند مخصوص شخصیات کے ہاتھ میں ہوتی ہے نتیجتاً جس طرح غیرمعیاری پراڈکٹس کا استعمال کم مفید اور بعض صورتوں میں مضر ہوتا ہے اسی طرح جعلی جماعتیں فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتے ہیں۔
ان میں نظریاتی اختلاف سے زیادہ شخصیاتی اختلاف جنم لیتے ہیں ، اقربا پروری اور موروثی سیاست کے ذریعے پارٹی پر کنٹرول کی کوششیں صاف نظرآتی ہیں ۔ شخصیات عہدوں کے حصول کے بعد ان پر ایسے چپک کر بیٹھ جاتے ہیں کہ نچھلی قیادت کی ترقی اور آگے بڑھنے کا عمل صرف ان کی موت سے ہی ممکن ہوپاتا ہے۔ پارٹی وسائل کی بندربانٹ شخصی بنیادوں پر ہونے سے ایک حلقہ معاشی طور پر مفلوج ہوکر شخصیات کے ہی دست نگر ہوجاتا ہے ۔ اداروں کی کمزوریاں ہی شخصیات کو پارٹی میں اس قدر نفوذ دیتے ہیں کہ وہ اول خود معاشی طور پر محض پارٹی وسائل پر انحصار کرنے لگتے ہیں پھر ان کو حاصل کرکے من مانی طریقوں سے خرچ کرکے پارٹی میں درباری کلچر کو فروغ دیتے ہیں انہیں ہروقت ایسے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جو پارٹی کی بجائے ان کے عہدوں کا تحفظ کرسکیں اس لیے کسی بھی جماعت میں مالیاتی نظام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔
سیاسی جماعتوں کی جائز ذرائع آمدنی پارٹی ممبران کے چندے اور خیرخواہوں کی فنڈنگ ہے جنہیں استعمال کرکے مزید ذرائع آمدنی بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ چندے کے توسط ممبران کو پارٹی میں پارٹی شراکتداری کااحساس پیدا ہوتااور پارٹی میں خودتنقیدی کا ماحول جنم لیتا ہے ۔ جو ممبر اپنے منہ کا نوالہ پارٹی کی ترقی کے لیے پیش کرتا ہے وہ اس پارٹی کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے اس لیے شخصیات سب سے پہلا ضرب پارٹی کی معاشی خودانحصاریت پر لگاتے ہیں ۔ پارٹی ممبران کے چندے کو متوقف کرکے پارٹی طاقت کی بنیاد پر ناجائز ذرائع آمدنی تلاش کیے جاتے ہیں جن پر عموما شخصیات اپنا سخت کنڑول رکھتے ہیں ۔ بعض صورتوں میں اسے پارٹی رازداری کے پردے میں لپیٹ کر کیا جاتا ہے ، جن جماعتوں میں یہ صورتحال ہو وہاں لامحالہ شخصیات دیوقامت بن جاتے ہیں اور ادارے نعیف ہوتے ہیں۔ کارکنان غیرمستحکم حالات کے خوف سے تنقید سے گھبراتے ہیں ۔
لیکن کسی بھی نوعیت کی سیاسی جماعت کو مسلسل اس طریقے سے چلانا ممکن نہیں رہتا۔ دراصل یہ سب کرتوت جماعت کی روح کے خلاف ہیں اس لیے یہ خامیاں اس کی ترقی کی بجائے تنزلی کی وجہ بنتی ہیں اور پارٹی میں نظریاتی بغاوت عام سی بات ہوتی ہےان حالات میں تب ہی سدھار ممکن ہے کہ شخصیات اپنی قربانی دے کر پارٹی کو بچائیں بصورت دیگر پارٹی کا وجود برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوگا ۔ اگر ہماری تحریکی جماعتوں میں یہ بیماریاں سرایت کرجائیں تو بہت ہی مشکل صورتحال پیدا ہوگی کیوں کہ ان خامیوں کے ساتھ انقلاب اور آزادی دونوں ہی ناممکنات ہیں اور اگر ان اعمال سے خائف نظریاتی کارکنان کی بغاوت کی سی صورتحال ہو تب بھی تحریک مشکلات کا شکار ہوگی اور ماضی کی قربانیاں زائل ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا اس لیے حتی الوسع ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ انقلابی جماعتوں کے صفوں میں ایسی صورتحال پیدا نہ ہوا۔ ہمیں اپنے بیان اور عمل کی ہمہ وقت جانچ کرنی چاہئے کہ کہیں غیرشعوری طور پر ہم اس گہری کھائی کی طرف نہیں بڑھ رہے ۔
کارکنان کو دیکھنا ہوگا کہ کہیں وہ شخصیت پرستی کی سحر میں نہیں ڈوب رہے ، ان کو محسوس کرنا ہوگا کہ ان کےماعتی فیصلے ادارے کررہے ہیں یا شخصیات اداروں کے نام پر اپنی من مانی کیے جارہے ہیں ۔ کارکنان کا کردار بھی اداروں کے تحفظ کے لیے اہم ہے اگر وہ تنظیمی بحث و مباحث سے لاتعلق ہوکر ’’ جارج آرویل ‘‘ کے ناول ’’ اینیمل فارم ‘‘ کے کردار ’’ باکسر ‘‘ کی طرح خود کو نعروں اور خود سے کیے گئے احمقانہ کمٹمنٹ میں مقید رکھیں گے اور صبح اُٹھ کر یہ سوچے بغیر کہ اس کے عمل کا تحریک کے لیے کوئی فائدہ نتیجہ بھی نکل رہا ہے یا نہیں نعرہ مستانہ لگاکر ’’ مجھے انتہائی خلوص کے ساتھ سب سے زیادہ کام کرنا چاہئے ۔‘‘ کام کرتے رہئیں گے ۔ تو ان کی محنت بھی رائیگاں جائے گی اورایک دن ایسا بھی آئے گاکہ وہ جسمانی اور ذہنی حوالےسے مزید مشقت کےقابل بھی نہ رہئیں گے اورانہیں پارٹی کے نخبگان کسی طاق نسیاں پر رکھ کر بھول جائیں گے۔ اگر اس سے محض ایک ذات کا نقصان ہو تو ہم اسے قربانی تسلیم کریں گے لیکن یہ ایک جماعت اور نظریے کے زوال کا پیش خیمہ ہے جس سے لاتعلقی اختیار کرنا اپنے نظریات سے غداری اور شخصیت پرستی کی بدبودار شکل ہوگی۔
ہم نے ذکر کیا کہ پارٹی کا ڈھانچہ انسانی سروں سے تشکیل پاتا ہے لیکن مجھے مزید واضح طور پر یہ بیان کرنا چاہئے کہ ایسا ہرگز نہیں کہ پارٹی کے تمام تر فیصلے چند خاص اذہان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی سوچ پر مطلق طرز کی حکمرانی کریں اگر ایسا ہے تو یہ آمرانہ طرز سیاست ہےجو ہمارے بنیادی نظریےسے متصادم ہے ۔ جماعتی اور جمہوری طرز سیاست یہ ہے کہ پارٹی کے تمام کارکنان کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے ۔ جماعت ہی ہے جو تمام سروں کو جوڑ کر ایک اجتماعی سوچ کو نمو دیتی ہے یعنی جماعت ہی جمہور کے دماغ کا کردار اداکرتا ہے اور جمہور یعنی عوام اپنے اجتماعی مفادات کے تحفظ اور ترقی کے لیے جماعتیں تشکیل دیتے ہیں ۔ اگر اس سارے عمل میں ’’عوام ‘‘ کو نظرانداز کیا جائے یا اپنی جماعت کے کارکنان کو جو کسی نا کسی سطح پر عوامی رابطے کی کڑیاں ہوتی ہیں تو پھر جماعت کی تشکیل کاجواز باقی نہیں رہتا ۔
لہذا ضروری ہے کہ بنیادی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر پارٹی کے تمام ادارے یونٹ سے لے کر مرکز تک فعال حالت میں موجود ہوں جن میں کارکنان کی فعالیت کو یقینی بنایا جاسکے ۔جہاں صورتحال اس کے برعکس ہو ہم دیکھتے ہیں کہ کارکنان کو محض پارٹی پالیسی اور لیڈران کے پروموشن کا فریضہ سونپ کر سیاسی حقوق دبائے جاتے ہیں ، اس سے سیاسی جماعتوں کا توازن بگڑتا ہے ۔تقسیم کار کی بجائے جو زیادہ متحرک کارکنان ہوتے ہیں ان پر دہری ، تہری ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں جس سے وہ اس قابل ہی نہیں رہتے کہ کوئی کام ڈھنگ سے کرسکیں ۔ عمومااس صورتحال کو کارکنان کی نالائقی سے تعبیرکیا جاتا ہے اور اس طرح کے جملے سنے جاتے ہیں کہ فلاں شخص غیرذمہ دار ہے، مستقل مزاجی سے کام نہیں کرتا لیکن حقوق و فرائض کے درمیان توازن کے بنیادی اصول کو دیکھا جائے تو یہاں بھی شخصی اجاراہ داری کی سوچ کارفرما ہے جوکارکنان کو ان کے کام میں معاونت کی بجائے ان کو ناکامیوں کا احساس دلانے کی کوشاں رہتی ہے تاکہ اسے یہ جتا سکے کہ جماعتی امور کو چلانے کے لیے اس میں صلاحیت نہیں ہیں۔ اس خودساختہ نالائقی کو قیادت کا فقدان دکھا کر ااداروں پر قبضے کی راہ ہموار کی جاتی ہے ۔
سیاست ایک رضاکارانہ عمل
ہمیں یہ بات مضبوطی سے گرے میں باندھنی چاہئے کہ کسی کو ذمہ داری تفویض کرنے کے بعد اس کو وسائل اور معاونت کی فراہمی بھی پارٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کارکنان کو بالعموم اور لیڈران کو بالخصوص اس بات کو لمحہ بھر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ سیاست ایک رضاکارانہ عمل ہے جس میں ہم بدست خود اپنی صلاحیتیں اور جان و مال ایک عمرانی معاہدے کے تحت تنظیم کے سپرد کرتے ہیں ۔ وہ تنظیم جو ہمارے اپنے پختہ فیصلوں کی بنیا د پر معرض وجود میں آتی ہے یا ہم اس کی ساخت اور ساکھ کے مطالعے کے بعد اس کوبحیثیت تنظیم چن کر اپنے خدمات سپرد کرتے ہیں ۔ چوں کہ بقول شہیدواجہ ’’ تنظیمی امور میں شامل ہونا ، یا تحریک کا حصہ ہونا کوئی عام کھیل نہیں یہ سروں کا سودا ہے ۔‘‘اس لیے تنظیم کا چناؤ کرتے ہوئے حددرجہ احتیاط لازمی ہے ہمیں اس بات کی مکمل تسلی کرنی چاہئے ہم اپنی ایمان اور قوت کوجس تنظیم کو سونپ رہے ہیں بطور تنظیم وہ اس کی اہل ہے یا اس کے آئین اور نظریاتی لٹریچر ہمارے سیاسی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں ۔ بہتر ہوگاکہ کسی بھی تنظیم میں شمولیت سے پہلے اس کا مختلف پہلوؤں پر مطالعہ کیا جائے ۔اس کے بعد جب کوئی سیاسی شعور سے لیس کارکن کسی تنظیم کا حصہ بنتا ہے تواس کی تربیت اور سماجی تحفظ بھی اس سیاسی تنظیم کی ذمہ داری بنتی ہے ۔
تنظیم کو چاہئے کہ ہر سیاسی کارکن کو تربت کے بنیادی مراحل سے گزارے اور اسے تنظیمی لٹریچر کے توسط متواتر ایسے نظریاتی مواد فراہم کرتا رہے کہ وہ تنظیم کے مرکزی معاملات سے باخبر ہوکران کی بہتری اور ترقی کے لیے فعال کردار ادا کرسکے ۔اگر کارکنان کی ’’رضاکارانہ ‘‘ ہمراہداری کا عنصر قیادت کے ذہن میں نہ ہو اور وہ کارکنان کو اپنی ذات کا پیروکار سمجھنے لگے ، اسے جن نکات کی بنیاد پر قیادت کا مینڈیٹ دیا گیا ہے اسے بھی نظرانداز کرئے تو ہ کارکنان کے کام میں معاونت اور سہولت کار کا کردار اداکرنے کی بجائے سیاسی آجر کے طور پر پیش آئے گا اور پارٹی کے کارکنان ، ذہنی پسماندگی اور معاشی بدحالی کا شکار ہوکر پارٹی کے ناکارہ پرزے میں تبدیل ہوجائیں گے ان میں جو باشعور کردار ہوں گے وہ خود تنقیدی کی فضاء پیدا کرکے اصلاح کی کوشش کریں گے ۔ اس سے انتشار اور تقسیم کا بھی خدشہ ہے ۔
یہ ان تما م موضاعات کا خلاصہ ہے جنہیں ’’ پولیٹیکل منیجمنٹ ‘‘ کے تحت مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ تعلیمی درسگاہوں میں نصابی طور پر متعارف ہونے والا ایک نسبتاً نیا شعبہ ہے ۔کینیڈا کے کارلٹن یونیورسٹی نے جولائی 2012 ء میں کینڈا کی سیاست کے محوراس شعبے میں ماسٹرپروگرامز کا آغاز کیا ۔
کارلٹن یونیورسٹی کے ویب سایٹ میں اس شعبے کے صفحے پر نامور صحافی اور مصنف بروس ہچیسن کا یہ قول نقل کیاگیا ہے
“Politics are the essential profession of democracy, and the hardest of all professions to master.”
– Bruce Hutchison
ترجمہ : سیاست جمہوریت کے لیے لازمی پیشہ ہے ،اور اس میں مہارت حاصل کرنا تمام دیگر شعبوں سے زیادہ مشکل ہے۔
سیاسی منیجمنٹ پر کتاب لکھنے کی ضرورت
ڈاکٹرجلال بلوچ نے زیرنظر کتاب میں اسی مشکل اور لازمی پیشے کے مختلف پہلوئوں پر بات کی ہے ۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اگر یہ محسو س ہو کہ ہم پر کڑی تنقید کی جارہی ہے تو سمجھنا چاہئے کہ ہم میں یہ کمزوریاں موجود ہیں جو اس کتاب یا درجہ بالاسطور میں زیرگفتگو آئی ہیں کیوں کہ یہ تنقیدی مضمون نہیں بلکہ ایک علمی موضوع ہے جس میں کہنہ مشق سیاسی کارکنان کے عملی تجربا ت مرتب کیے گئے ہیں ۔ اسے پڑھتے وقت قاری کو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے جان بوجھ کر بدیسی اسکالرز کے حوالہ جات دینے کی بجائے بلوچ سیاسی رہنماؤں کے خیالات کو اپنے کتاب میں مناسب مواقع پر بطور حوالہ استعمال کیا ہے ۔ یہ ہمارے لکھاریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بدیسی اسکالرز اور دوسرے ممالک کے حالات پر لکھی گئی کتابوں کے حوالہ جات کو موضوع یاٹھوس شکل میں پیش کرنے کی بجائے معروضی حالات کے مطالعے کو عالمانہ زبان میں بیان کریں لیکن عالمانہ زبان سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ہم محض الفاظ کی خوبصورتی اور الجھاؤپر ہی زور یں بلکہ اپنے مفہوم کو مدلل اور منطقی پیرائے میں بیان کریں ۔ ایک لکھاری کتاب اس لیے نہیں پڑھتا کہ وہ اس کتاب کو اپنے الفاظ میں ایک نئی شکل میں ڈھال کر چاپ دے یا دس بیس کتابوں سے حوالہ جات اکھٹی کرکے ایک نئی کتاب مرتب کرئے ۔
لکھاری کو کتابیں اپنے ادارک کی بالیدگی اور دانشورانی نکتہ نگاہ نمو کے لیے پڑھنی چاہئیں ۔لکھاری کی تحریر کسی کتاب کی نقل نہیں بلکہ معاشرہ اور معروض کے مطالعے کا حاصل ہونا چاہئے اگراسے وہی کچھ ہی بیان کرنا ہے جو دوسری کتابوں میں پہلے سے بیان کی گئی ہے ، تو اس کے لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟
سیاست ‘‘ ایک ہمہ دم ارتقاء پذیر موضوع ‘‘ ہے جو اسے مزید مشکل بنادیتا ہے ۔سیاست حالات پر ٹکی ہے اور بعض اوقات حالات لمحوں میں تبدیل ہوتے ہیں اور سیاسی فیصلے بھی ان ہی حالات کے مطابق ہوں تب ہی موثر ہوتے ہیں ۔ اس لیے پولیٹیکل منیجمنٹ کا مطالعہ سیاسی کارکنان کو ایک وسیع کینوس فراہم کرتا ہے ان کے ذہن میں ایک دریچہ کھلتا ہے جس سے وہ زیادہ واضح ، شفاف اور دور تک دیکھ پائیں گے۔
لیکن یہ کتاب پولیٹیکل مینجمنٹ کی کلیات نہیں ہے ، چوں کہ اس کتاب کا محور بلوچ سیاست ہے تو اس میں زیادہ تر ان ہی موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے جو ہماری سیاست سے میل کھاتے ہیں ۔ بالاسطور میں عرض کیا کہ چوں کہ یہ موضوع بطور مربوط نصابی علم اتنا پرانا نہیں اس لیے کتاب میں موجود بعض اصطلاحات بھی واقعاتی اور تاریخی مضامین میں دلچسپی رکھنے والے سیاسی کارکنان کے لیے قدرے اجنبی ہوسکتے ہیں ۔اس لیے میں قاری کو اس کتاب کو زیادہ غور سے پڑھنے کا مشورہ دوں گا ۔ ایک ایسی کتاب جس میں وسیع موضوعات کو تعارفی پیرائے میں خلاصے میں بیان کیا گیا ہواس کو پڑھنے کے بعد مزید پڑھنے کی خواہش ہونی چاہئے کیوں کہ اس کتاب کے مخاطب سیاسی کارکنان ہیں اور سیاسی کارکنان کسی جماعت کا نعرہ باز جھتہ نہیں بلکہ پارٹی قوت اور قیادت کا سرچشمہ ہیں ۔
یہ مانا جاتا ہے کہ پولیٹیکل منیجمنٹ علم سیاسیات پر عملدرامد کا طریقہ کار ہے۔ہم عمومی طور پر سیاسی کارکنان سے سنتے ہیں کہ وہ خود کو سیاست کا طالب علم گردانتے ہیں یعنی ہر سیاسی کارکن ایک سیاسی منتظم (پولیٹیکل منیجر) ہے ۔ ایک سیاسی منتظم میں جو صفات ہونی چاہئیں ان میں مطالعے کا رجحان بنیادی شرط ہے ۔ اخبار ات کا مطالعہ ازبس ضروری ہے جو نہ صرف سیاسی کارکنا ن بلکہ مختلف جہت کے لکھاریوں کو بھی خام مواد مہیا کرتے ہیں کسی زمانے میں سیاسی کارکنان میں اخباربینی کا رجحان توانا ہوا کرتا تھا آج کل کے سوشل میڈیائی لہر میں وہ غیرمربوط اطلاعا ت کی بھول بھلیوں میں مستند اور مربوط ذرائع ابلاغ سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ سیاسی جماعت کے کارکنان بھی سوشل میڈیا پر شعر وشاعری پر طبع آزمائی میں مصروف ہیں ، کتابیں اور وہ بھی نصابی طرز کی کتابیں پڑھنا، پڑھانا اور اس پر تبصرہ کرنا ہمارے معمولات کا حصہ ہونا چاہئے تھا لیکن ہم اس سے زیادہ ہندوستانی تفریحی فلموں پر گفتگوکرنے میں وقت کھپاتے ہیں ۔ حالانکہ پولیٹیکل منیجمنٹ بھی ایک فن ہے جسے سیکھ کر ہم یہاں بھی تخلیقی جوہر کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لکھاری اورسیاسی کارکن کے مابین ایک فرق ہے لکھاری اپنی تحریریں کاغذوں پر رقم کرتے ہیں اور سیاسی کارکنان ذہنوں میں کندہ کرتے ہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس سے سیاسی کارکنان کا رتبہ کم ہوجاتا ہے ، اس کی نسبت شاعر اور لکھنے والوں کو عوام میں زیادہ پذیرائی ملتی ہے اور وہ زیادہ موثر ہوتے ہیں ۔شاید یہی سوچ کر ہمارے ہاں بڑے لیڈران بھی بے تکی شاعری کررہے ہیں ظاہر ہے اچھی شاعری کے لیے جو ہنر ، شاعرانہ مزاج اور مطالعہ درکار ہوتا ہے وہ ہمارے زمینی حالات میں کسی عام سیاسی کارکن کو بھی میسر نہیں چہ جائیکہ کہ کوئی اہم ذمہ دار ’’عروض اور بحر‘‘ کی دریا میں موتی چن کر لانے کی خواہش کرئے ۔
تخلیقی فن کی موت میں سیاست کا کردار
خضدار (2008) میں پارٹی کے سیشن کے بعد دوسری سینٹرل کمیٹی میٹنگ کے بعد جب مجھے پتاچلا کہ ہمارے بچپن میں مشہور گانا ’’ ناز ءُ نایاپتیں جنک ۔ ۔ ۔ ‘‘ ہمارے قائد واجہ غلام محمد کا لکھا ہوا ہے تو میں نے خوشی ، حیرت اور رشک کی ملی جلی کیفیت میں شہیدواجہ سے کہا :’’ آپ نے ایک اچھے شاعر کو قتل کردیا ہے ۔ ‘‘
آپ نے فرمایا :’’ میں نے ؟ نہیں آپ لوگوں نے ۔ ‘‘
ایسا ہی تھا بی این ایم کی ذمہ داریاں اُٹھانے کے بعد شہید واجہ نے شاعری کو خیرآباد کہہ دیا ۔ وقت اور حالات اس تیزی سے بدل رہے تھے کہ ان کے لیے اپنی نازک شاعری کو اپنے شاعرانہ مزاج کے مطابق پروان چڑھانا ممکن نہیں رہا ۔ اس بیچ اگر ہمارے یہاں انقلابی شعرا نے شعرگوئی کی کوشش بھی کی تو وہ فن شاعری کے عیوب سے دامن بچانے میں بری طرح ناکام ہوئے جس طرح گل خان نصیر بلوچی زبان کے صف اول کا شاعر ہونے کے باوجود اپنی سیاست کو شاعری کا گلا گھونٹنے سے نہ بچاسکے ۔ تو ایسی شاعری جو فن اور سیاست دونوں کے لیے ہی مفیدنہ ہو اسے پڑھنے اور لکھنے کی بجائے ہمیں اپنے سیاسی حلقوں میں علمی نثرنگاری اور علمی مباحث کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔ مابعد الموت زندگی پر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کو تسکین ملےگی تو اس کی شرط صرف شاعری اور کہانی نویسی نہیں ۔دنیا میں لاکھوں ایسی شخصیات ہوں گی جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک بھی کتابی جملہ نہیں لکھا لیکن ان پر سینکڑوں کتابیں اور مضامیں لکھی جاتی ہیں ۔ اس لیے جب کسی کارکن کو سیاسی مطالعے کی ترغیب دی جائے تو وہ شاعری اور فکشن پڑھنے کی بجائے ’’تاریخ ، منطق،فلسفہ ، حالات حاضرہ اور نفسیات‘‘ کے موضوعات پر لکھی کتابیں پڑھے تاکہ وہ ایک اچھا سیاسی منتظم بن سکے ۔
سال 2008 کے بی این ایم کے سیشن میں پارٹی کے آئین میں پارٹی ممبر ہونے سے پہلے سہہ ماہی ’’ دوزواہ ‘‘ کی شرط شامل کی گئی ۔ اصل میں سیشن میں اس سے بہتر اور مفصل تجویز دی گئی تھی ۔ جنہیں بعد ازاں طریقہ کار کی تشریح میں بیان کیا گیا ۔ بظاہر یہ ایک آئینی نکتہ ہے لیکن اس پر اگر غور کیا جائے تو یہ کارکنان کو یکساں تربیتی مراحل سے گزارنے کا عمل ہے جسے آئین میں شامل کرکے اسے یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ریڈیو زْرمبش بلوچی کے پروگرام ’’ راج ءِ دیم ءَ ‘‘ میں پارٹی کے چیئرمین خلیل بلوچ نے ممبرشپ کی طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’ دوزواھی کی مدت کے خاتمے کے بعد پارٹی کے سینئرممبران یہ طے کریں گے اس مرحلے میں پارٹی ممبرشپ کے امیدوار نے اتنی اہلیت حاصل کی ہے کہ اسے پارٹی ممبرکا درجہ دیا جائے یا نہیں‘‘ماضی میں ممبرشپ فارم پر علاقائی قیادت کے علاوہ پارٹی کے دو سینٹرل کمیٹی ممبران کی تائید بمع تبصرہ کا ہونا لازمی تھا ۔
آئین کا حصہ ہونے کے بعد پارٹی میں عمومی رجحان نے اسے قبول کرنے کی کوشش نہیں کی نتیجتاً یہاں بھی خانہ پری ہوتی ہے۔ پولیٹیکل منجیمنٹ اس ضرورت کو اجاگر کرتا ہے ۔ یہاں یہ بھی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ پولیٹیکل منیجر کے آزاد اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں معنی س محض سیاسی کارکن بلکہ وہ پیشہ ور افراد ہیں جو کسی سیاسی جماعت کو اپنے پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرتے ہیں لیکن اس کے لیے بھی ان کا اس سیاسی جماعت کا رکن ہونا لازمی ہے ۔ پولیٹیکل منیجمنٹ کی ترقی بھی تب ہی ہوئی جب سیاسی جماعتوں نے شخصی اجارہ داری کی بجائے پارٹی مرکزیت کی طرف توجہ دی اور اپنے ہی سیاسی کارکنان کو باقاعدہ تنخواہ دے کر پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لیے رکھا ، یہی شخصی اجارہ داری کا توڑ اور ادارہ سازی کا گُرہے ۔کمزور اداروں کے ہوتے ہوئے شخصی اجارہ داری سے گلوخلاصی ممکن نہیں ، مضبوط ادارے بغیر پیشہ ور افراد کے چلائے نہیں جاسکتے ۔ پیشہ ور افراد پہاڑی جڑی بوٹیوں کے استعمال سے بنتے ہیں نا ہی پیڑوں پر اگتے ہیں اس کے لیے مربوط علم حاصل کرنا ضروری ہے ۔
جس طرح عام علم حاصل کرنے کے لیے درجہ بدرجہ پڑھنا پڑھتا ہے اسی طرح پولیٹیکل منیجر کو بھی دربدرجہ آگے بڑھناہوتا ہے ۔ کتابیں ہمیں عمل کے لیے تیار کرتی ہیں اور پولیٹیکل منیجمنٹ سیاسی کارکنان کو عمل کی میدان میں اتار کر اس کو تجرباتی علم اخذکرنے کی طرف دھکیلتا ہے ۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’آپ تیراکی سے متعلق کتاب پڑھ کر تیراکی نہیں سیکھ سکتے اس کے لیے آپ کو پانی میں اترنا پڑے گا۔‘‘
اسی بنیاد پر پولیٹیکل منیجمنٹ میں سیاسی منتظمین کی تین درجہ بندیاں کی گئی ہیں :
1: سیاسی انتظام کاری کی پہلی لائن: اس لائن میں موجود سیاسی کارکنان پارٹی کے پیشہ ورانہ ملازمین ،پارٹی کے نچھلی سطح کی ذمہ داریاں نبھانے والوں اور ممبران کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔
2:سیاسی انتظام کاری کی درمیانی لائن :اس لائن میں ھنکین (ضلع) کے ذمہ داران ہوتے ہیں جو اپنے دائرہ کارمیں کام کرتے ہیں ۔
3: سیاسی انتظام کاری کا درجہ برای منتظمین یا قائدانہ لائن :تیسرے درجے میں شامل افراد پارٹی کے تمام امور میں رابطہ کاری اور سہولتکاری کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ عمومی زبان میں ہم اسے لائن میں موجود سیاسی منتظمین کو قائدین کہتے ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ پولیٹیکل منیجمنٹ کی یہ کتاب جب کسی ایسے موضوع پر بحث کرتی ہے جہاں ہمیں ہماری کمزوریاں نظر آتی ہیں توہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم پر کڑی تنقید کی جارہی ہے ۔ مندرجہ بالادرجہ بندیاں بھی شاید ہمیں یہ احساس دلائیں کہ ہمارے کئی سیا سی منتظمین مرحلہ وار آگے بڑھنے کی بجائے ایکدم جست لگا کر تیسری لائن تک پہنچے ہیں جس سے ان کی تربیت اور صلاحیت میں خامیاں رہ گئی ہیں اس لیے کسی پارٹی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قیادت پہلی اور درمیانی لائن سے ہوتے ہوئے تیسری لائن تک پہنچے ۔
سیاسی کارکنان کی تعلیم
ہمارے ہاں سیاسی کارکنان کی اہلیت کے بارے میں ویسے تو سرے سے ہی کوئی معیار ہی نہیں لیکن قیادت جیسے اہم عہدے کے لیے بھی محض ان افراد پر نظر جاتی ہے جو اچھی تقریر کرتے ہیں ۔ پولیٹیکل منیجمنٹ ہمیں بتاتا ہے کہ سیاسی کارکنان کی تعلیم تین مختلف پہلوؤں پر ہونی چاہئے ۔فنی ، انتظامی اور تخلیقی ۔
فنی :سیاسی کارکن کے ذمے جو کام ہوتی ہے اسے اس کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئے تاکہ وہ متعلقہ شعبے میں رہنماہانہ کردار ادا کرسکے۔
انتظامی :اس باب میں ان موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے جو مختلف حالات میں سیاسی کارکن کے امور اور ذمہ داریوں سے متعلق ہیں جیسے کہ منصوبہ بندی ،تنظیم،قیادت،رابطہ کاری اور کنٹرول ۔
تخلیقی :چوں کہ پارٹی کے اطراف حالات میں مسلسل تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں جس کے پارٹی پر لامحالہ اثرات پڑھتے ہیں جس کے لیے نئی اور بہترمنصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ فنی اور انتظامی امور میں کئی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جنہیں ہم تقلیدی عمل کے ذریعے سیکھتے ہیں لیکن تخلیقی صلاحیتیں تجربا ت اور وسیع مطالعے کی بدولت نشونماپاتی ہیں ۔ یہ کسی سیاسی کارکن کی تربیت کا وہ جز ہے جو اسے تیسرے مرحلے پر پہنچنے کااہل بناتا ہے ۔ تخلیقی صلاحیتیں جماعت کو جمود کا شکار ہونے نہیں دیتیں۔
یہ سوال کہ کون سیاسی کارکن بننے کے لیے اہل ہے اس سوال کا جواب پہلے دیتا ہے کہ کون سیاسی کارکن بننے کا اہل نہیں ۔ جوآسائش ، راحت ، ہفتہ وار چھٹیاں ، یکسانیت اور معلومات سے عاری زندگی چاہتے ہیں وہ یقینی طور پر سیاسی کارکن بننے کا اہل نہیں ۔سیاسی کارکن بننے کے لیے زیادہ توانائی ،قربانی ، زیادوقت یعنی باقاعدہ اوقات کار کے علاوہ کام ،ملاقاتیں ،کثرت سے سفر،مخالف رائے اور رویوں سے صلح جویانہ طریقے سے نمٹنا ،مشکل اور خطرناک فیصلے کرنے کی قوت کا ہونا ازبس ضروری ہے ۔
***