اسلام آباد میں بلوچ طلبا کو شناخت کی بنیاد پر ریاستی پروفائلنگ و ہراسانی کا سامنا ہے،بی ایس سی آئی

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سمیت وفاق اور پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو مسلسل بلوچ شناخت کی بنیاد پر پروفائلنگ اور ہراساں کا سامنا ہے ، شناخت کی بنیاد پر ہراساں، پروفائلنگ اور جبری گمشدگیاں تعلیمی اداروں میں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء کو بار بار جبری طور پر لاپتہ کرنا اور ان کی پروفائلنگ کرنا نہ کوئی نیا عمل ہے اور نہ ہی ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے بلکہ یہ ریاستی پالیسی کا تسلسل بن چکا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے پانچویں سمسٹر کے طالب علم سعید بلوچ کو گزشتہ ماہ 8 جولائی کو شام 7:30 بجے اسلام آباد کے 26 نمبر ٹول پلازہ کے قریب سے سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے بس سے اتار کر جبراً لاپتہ کردیا، جب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اسلام آباد سے کوئٹہ جارہے تھے۔ سعید بلوچ کی جبری گمشدگی میں ریاستی خفیہ اداروں سمیت قائداعظم یونیورسٹی انتظامیہ، ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے فیکلٹی ممبران اور بوائز ہاسٹل کے وارڈن کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ اس واقعے سے چند روز قبل، 1 جولائی کو بوائز ہاسٹل کے وارڈن راشد ملک نے واٹس ایپ پر سعید بلوچ کے بارے میں بلوچ طلباء سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پھر 3 جولائی کو ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے کلرک کامران نے سعید بلوچ کو فون کرکے انٹرویو کے بہانے دو مشکوک افراد سے ملاقات کے لیے بلایا، اس ملاقات میں ڈیپارٹمنٹ کے فیکلٹی ممبران نوید قیصر اور صادق بھی موجود تھے جن کی موجودگی میں سعید بلوچ کو مختلف سوالات کے ذریعے ہراساں کیا گیا۔ 4 جولائی کو یہی مشکوک افراد بوائز ہاسٹل نمبر 11 کے کمرہ نمبر 43 میں سعید بلوچ کی تلاش میں آئے۔ ان تمام واقعات سے واضح ہے کہ سعید بلوچ کی گمشدگی ایک باقاعدہ منصوبے کا حصہ تھی۔

ترجمان نے کہا کہ گزشتہ چند روز قبل قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے 172 طلباء کو گرفتار کیا گیا، جن میں بلوچ طلباء بھی شامل تھے، لیکن پولیس تھانے میں سی ٹی ڈی سمیت دیگر ریاستی اداروں نے بلوچ طلباء کو الگ کرکے ان سے مختلف سوالات کیے، انہیں ہراساں کیا اور ان کی پروفائلنگ بھی کی۔ ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ طلباء کی آواز کو دبانا صرف ایک قوم کی توہین نہیں بلکہ انسانی آزادی، علم اور شعور کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اگر ایک ریاست نوجوان نسل کو لاپتہ کرتی ہے، انہیں ذہنی مریض بناتی ہے اور تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم کرتی ہے تو یہ صرف ظلم نہیں بلکہ جرم ہے، یہ تاریخ کے ضمیر پر دھبہ ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچ طلباء گزشتہ دو دہائیوں سے اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مسلسل ریاستی جبر، ہراسانی اور پروفائلنگ کا شکار ہیں۔ اس طرزعمل نے نہ صرف ان کی تعلیم کو متاثر کیا ہے بلکہ انہیں نفسیاتی طور پر بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیمی ادارے، جو کہ علم و تحقیق کے مراکز ہونے چاہئیں، بلوچ طلباء کے لیے خوف و ہراس کا گڑھ بن چکے ہیں۔ بلوچ طلباء کے خلاف جاری یہ سلسلہ صرف چند انفرادی واقعات نہیں بلکہ ایک منظم ریاستی پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد بلوچ طلباء کو ان کے بنیادی حق تعلیم سے محروم رکھنا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ملکی آئین اور عالمی اصولوں کے بھی منافی ہے۔

Share This Article