پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اسیررہنمائوں کی رہائی و لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بی وائی سی رہنمائوں اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی دھرناگذشتہ روزپیرکو 13ویں روز بھی جاری رہا۔
احتجاجی مقام پر راجی مُچی کے ایک سال مکمل ہونے کی مناسبت سے ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں بلوچ قومی ترانہ گایا گیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ راجی مُچی کے انعقاد کے دوران ریاست نے اسے ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے، مگر ناکامی خود ریاست کا مقدر بنی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد صرف ایک روز کے لیے گوادر میں راجی مُچی کا انعقاد تھا، لیکن یہ تحریک ایک ہفتے سے زائد عرصے تک پورے بلوچستان میں پھیل گئی۔
مقررین نے کہا کہ گوادر میں 13 یا 14 دن قیام کے بعد تربت، پنجگور، گریشہ، نوشکی اور قلات سمیت مختلف علاقوں میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔ بی وائی سی کا بنیادی مقصد بلوچ عوام کی نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار کے خلاف تمام قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا ہے۔ ان کے مطابق، قومی مسئلے کو نہ صرف اپنی قوم بلکہ مشرق وسطیٰ اور عالمی برادری کے سامنے بھی پیش کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم اپنی قوم کو یکجا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارے مسائل کا حل ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جب بھی کوئی احتجاج یا ریلی منعقد ہوتی ہے، ریاست اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم بلوچ قوم نے ابتدا سے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی قومی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور اس تحریک کو ہر صورت کامیاب بنائے گی۔ توپیں اور گولیاں ہماری راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔
مقررین نے بتایا کہ راجی مُچی کے دوران ہمارے چار ساتھی شہید ہو چکے ہیں جبکہ متعدد کارکن زخمی ہوئے، لیکن اس کے باوجود وہ احتجاجی تحریک میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زخمی کارکن جہاں کہیں بھی احتجاج ہوگا، وہاں پہنچ کر اس میں شامل ہوں گے۔ یہ ریاست کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ جتنا زیادہ تشدد کیا جائے گا، ہم اتنی ہی شدت سے مزاحمت کریں گے۔
دھرنے کے 13 ویں روز میں بی وائی سی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک بار پھر پاکستانی حکام نے اس تحریک کو تنہا کرنے اور دبانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے احتجاج کو لوگوں کی نظروں سے چھاپنے کے لیے احتجاجی مقام کے ارد گرد بسیں کھڑی کر دی ہیں اور نگرانی جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار باقاعدگی سے احتجاج کی جگہ میں داخل ہوتے ہیں، شرکاء اور خاص طور پر طلباء کو ڈرانے کی کوشش میں ان کی فلم بندی کرتے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں کے باوجود اہل خانہ نے خاموشی اختیار کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ آج گوادر میں تاریخی "بلوچ راجی موچی” کو بھی ایک سال مکمل ہو گیا ہے جو کہ جبر کے خلاف اتحاد اور مزاحمت کا لمحہ تھا۔اس دن کی یاد میں اہل خانہ نے بلوچ راجی موچی کے شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور اہل خانہ نے بلوچ قومی اجتماع کے حوالے سے اپنے تجربات اور تعریفیں بھی بتائیں۔